سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(201) صوفیا ء کی مخصوص اصطلاح "صاحب وقت"

  • 8495
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1054

سوال

(201) صوفیا ء کی مخصوص اصطلاح "صاحب وقت"
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تصوف کی طرف  منسوب  لو گوں کے اس قول  کے کیا  معنی  ہیں کہ "وہ  تصرف کر سکتا ہے ۔ جو شخص  یہ اعتقا د  رکھتا  ہو اس کے با رے میں  کیا  حکم ہے؟  کیا اس  کے پیچھے  نماز جا ئز ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

"ہما را مرشد   صاحب   وقت  ہے " اس کے  معنی  یہ ہیں  جن کے  ہاتھ  میں  مخلوق  کے امور  ہیں  وہ ان کے امور  میں  تصرف  کی قدرت   رکھتے  ہیں  ان  کی مشکلا ت  کو ختم کر سکتے ہیں ۔ ان کی مصیبتوں اور  بلائوں کو دور کر  سکتے  ہیں اور ان کے   بز عم  وہ ان کی طرف   اچھا ئیوں   اور  بھلائیوں  کو پہنچا  سکتے  ہیں ۔  جو شخص  یہ  اعتقا د  رکھے  وہ اللہ  تعالیٰ  کی  ربوبیت  اور تدبیر  امور  خلق  میں  غیر اللہ کو شر یک  کر تا  ہے ۔ اس کے پیچھے  نماز  ادا کر نا  جا ئز  نہیں  اسے مسلمانوں  کے  کسی  منصب  پر فا ئز  کر نا  درست نہیں ۔صریح  کفر  واضح    شر ک  اور  زما نہ  جا ہلیت  کے شر ک   سے بھی  بد تر  شرک کے ارتکا ب کی وجہ  سے ایسے  لو گو ں   کو   نما  ز    کا امام بنانا بھی جا ئز نہیں  ارشاد با ری تعالیٰ ہے :

﴿قُل مَن يَر‌زُقُكُم مِنَ السَّماءِ وَالأَر‌ضِ أَمَّن يَملِكُ السَّمعَ وَالأَبصـرَ‌ وَمَن يُخرِ‌جُ الحَىَّ مِنَ المَيِّتِ وَيُخرِ‌جُ المَيِّتَ مِنَ الحَىِّ وَمَن يُدَبِّرُ‌ الأَمرَ‌ فَسَيَقولونَ اللَّهُ فَقُل أَفَلا تَتَّقونَ ﴿٣١ فَذلِكُمُ اللَّهُ رَ‌بُّكُمُ الحَقُّ فَماذا بَعدَ الحَقِّ إِلَّا الضَّلـلُ فَأَنّى تُصرَ‌فونَ ﴿٣٢﴾... سورة يونس

(ان سے )پو چھو  کہ  تم  کو  آسمان  اور  زمین   میں  رزق  کو ن  دیتا  ہے یا (تمہا رے  ) کا نو ں  اور آنکھوں کا ما لک  کو ن  ہے  اور  بے  جا ن  سے جان  دار  کو ن  پیدا  کر تا ہے ؟اور دنیا کے کا مو ں کا انتظا م کو ن کر تا ہے ؟ جھٹ کہہ دیں گے  کہ اللہ تو کہو  کہ پھر  تم  (اللہ سے )ڈر تے کیو ں نہیں  ؟ یہی  اللہ  تو   تمہا را پروردگا ر  بر حق  ہے اور حق با ت کے ظا ہر ہو نے  کے بعد   گمرا ہی  کے سوا ہی کیا؟ تو تم  کہا ں  پھر ے جا تے  ہو ؟

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1 ص38

تبصرے