حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی کا کیا قصہ ہے جن سے بعد میں نبی کریمﷺ نے شادی کرلی تھی؟شادی کیسے ہوئی اور پھر کیوں ختم ہوگئی؟بعض عرب ملکوں میں ہم نے بعض لوگوں سے یہ سنا ہے کہ نبی کریمﷺ کو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سےعشق ہوگیا تھا۔ اور سلسلہ میں میں نے جو باتیں سنی ہیں۔میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ میں انہیں لکھوں لہذا براہ کرم صحیح صورت حال پر روشنی ڈالیں؟
زید بن حارثہ بن شراحیل کلبی رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے۔آپ نے انہیں آزاد کرکے اپنا متنبی بنا لیا تھا۔جس کی وجہ سے انہیں زید بن محمد کہا جاتا تھا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ٰ نے یہ حکم نازل فرمادیا:
''مومنو! لے پالکوں (منہ بولے بیٹوں) کو ان کے (اصلی ) باپوں کے نام سے پکارا کرو۔''
تو اس آیت کے نزول کے بعد لوگوں نے انہیں زید بن حارثہ کہنا شروع کردیا او ر حضرت زینب سے مراد زینب بنت حجش بن رباب اسدیہ ہیں۔ان کی والدہ کا نام امیمہ بنت عبدالمطلب ہے جو کہ رسول اللہﷺ کی پھوپھی تھیں۔
حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شادی کا قصہ یہ ہے کہ خود رسول اللہﷺ نے یہ شادی کروائی تھی کیونکہ زید آپﷺ کے آزاد کردہ غلام اور متنبی تھے۔آپ نے زید کی شادی کی بات کی تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انکار کردیا اورکہا کہ میں حسب ونسب کے اعتبار سے اس سے بہتر ہوں۔لیکن اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نےیہ آیت کریمہ نازل فرما دی:
''اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نیں ہے۔کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہ ہوگیا۔''
تو اس آیت کے نزول کے بعد اللہ تعالیٰ ٰ کی اطاعت اور رسول اللہﷺ کی خواہش کے احترام میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے زید سے شادی کو منظور کرلیا۔اور ایک سال کے قریب حضرت زید کے ساتھ رہیں۔پھر ان دونوں میاں بیوی کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے۔حضرت زید نے رسول اللہ کی خدمت میں ان کی شکایت کی کیونکہ زید اگر نبی کریمﷺ کے آزاد کردہ غلام اور متنبی تھے تو زینبرضی اللہ تعالیٰ عنہا آپﷺ کی پھوپھی امیمہ کی بیٹی تھی۔زید نے طلاق دینے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن نبی کریمﷺ نے حکم دیا کہ طلاق نہ دو بلکہ صبر کرو حالانکہ آپ کو وحی الٰہی سے یہ معلوم ہوچکا تھا کہ زید طلاق دے دیں گے۔اور زینب آپﷺ کے حبالہ عقد میں آجایئں گی۔لیکن آپ کو خدشہ محسوس ہوا کہہ لوگ طعنہ دیں گے۔کہ آپ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے شادی کرلی ہے کیونکہ اس طرح کی شادی زمانہ جاہلیت میں ممنوع تھی اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ ٰ نے اپنے نبی سے مخاطب ہو کرفرمایا:
''اور جب تم اس شخص سے جس پر اللہ نے احسان کیا او ر تم نے بھی احسان کیا (یہ ) کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دے اور اللہ سے ڈر اور آپ اپنے دل میں وہ بات چھپاتے تھے۔جس کو اللہ ظاہر کرنے والا تھا۔اور آپ لوگوں سے ڈرتے تھے۔حالانکہ اللہ ہی اس کا زیادہ مستحق ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔''
یعنی اللہ تعالیٰ ٰ اس کو جانتا ہے۔ کہ آپ اپنے جی میں اس بات کو چھپارہے تھے۔جسے اللہ تعالیٰ ٰ نے آپ کو معلوم کروادیا تھا کہ زید اپنی بیوی کو طلاق دے دیں گے۔اور پھر زینب سے آپ کی شادی ہوگی۔تاکہ آپ حکم الٰہی کے سامنےسراطاعت جھکاتے ہوئے۔اس کی حکمت ومصلحت کے مطابقا زینب سے شادی کرلیں لیکن آپ لوگوں کی باتوں اور الزام تراشیوں سے ڈرتے ہیں۔حالانکہ اللہ تعالیٰ ٰ کی ذات اس بات کی زیادہ مستحق ہے۔کہ آپ اس سے ڈریں لہذا آپ لوگوں کی پرواہ کیے بغیر اس بات کا کھلم کھلا اعلان فرمادیجئے جو زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ان کی شادی کی بابت بزریعہ وحی بتادیا گیا ہے۔حضرت زید نے جب طلاق دے دی اور عدت گزر گئی تو نبی کریمﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو شادی کا پیغام بھیجا تو اللہ تعالیٰ ٰ نے خود ہی ولی اورگواہوں کے بغیر اپنے پیغمبر کی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی کردی بلا شبہ نبی کریمﷺ تمام مومنوں کے ولی ہیں بلکہ ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ ٰ نےفرمایا:
''پیغمبر نبی کریمﷺ مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں۔''
زمانہ جاہلیت میں جو لے پالک بنانے کی عادت تھی اللہ تعالیٰ ٰ نے اسے باطل کردیا۔ اور مسلمانوں کے لئے یہ حلال قرار دے دیا۔کے وہ اپنے لے پالکوں کی بیویوں کے ساتھ ان کے طلاق دینے یا ان کے فوت ہوجانے کی صورت میں شادی کرسکتے ہیں۔اللہ نے مسلمانوں پر رحمت فرمانے اور ان سے حرج کودور کرنے کے لئے یہ حکم دیا۔
جو یہ بیان کیاجاتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پس پردہ سے دیکھا تو اس سے ان کی محبت آپ کے دل میں گھر کر گئی ۔آپﷺ کو ان سے عشق ہوگیا۔حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کا علم ہوگیا تو انھوں نے اپنے آپ پر نبی کریمﷺ کو ترجیح دی۔اورزینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کوطلاق دے دی۔تاکہ نبی کریمﷺ ان سے نکاح کرلیں تو یہ باتیں کسی بھی سند سے ثابت نہیں ویسے بھی حضرات انبیاء کرامعلیہ السلام کی شان اس سے بہت اونچی ان کے نفس عفیف ان کے اخلاق کریمانہ اور ان کا مقام مرتبہ اس قسم کی باتوں سے بلند وبالا اور ارفع واعلیٰ ہوتا ہے۔اور پھر نبی کریمﷺ نے خود اپنی پھوپھی زاد زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا رشتہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے طلب کیا تھا۔اگر آپ ﷺ کے دل میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں ایسی کوئی بات ہوتی تو آ پ ﷺ شروع سے ہی یہ رشتہ زید کی بجائے اپنے لئے طلب فرمالیتے۔خصوصاً جبکہ شروع میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس سے انکارکردیاتھا۔اورآپرضی اللہ تعالیٰ عنہا اسوقت راضی ہوئیں جب اللہ تعالیٰ ٰ نے آیت نازل فرمائی درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ ٰ کی طرف سے زمانہ جاہلیت کی عادات کوختم کرنے کےلئے ہر ایک تدبیر اور فیصلہ تھا۔اور لوگوں کے لئے اس میں تخفیف اور رحمت کاپہلو جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:
''پھر جب زید اس سے اپنی حاجت پوری کرچکا (یعنی اس کو طلاق دے دی) تو ہم نے اس(مطلقہ خاتون) کا آپ سے نکاح کردیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے ساتھ نکاح کرنے کے بارے میں کوئی تنگی نہ رے جب وہ ان سے اپنی حاجت پوری کرچکے ہوں(یعنی طلاق دے دیں)اور اللہ تعالیٰ ٰ کا حکم واقع ہوکر رہنے والا تھا۔نبی کریمﷺ پر کسی ایسے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ ٰ نے ان کے لئے مقرر کردیا ہو۔جو انبیاء کرام پہلےگزرچکے ہیں ان کے معاملے میں بھی اللہ تعالیٰ ٰ کا یہی دستور رہا ہے اور اللہ کا حکم ایک قطعی طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے۔(یہ اللہ تعالیٰ ٰ کادستور ہے ان لوگوں کےلئے)جو اللہ کے پیغامات (جوں کے توں) پہنچاتے اور اسی سے ڈرتے رہے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔اور اللہ ہی حساب لینے کے لئے کافی ہے۔ محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔اور اللہ ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے۔''
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب