سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(98) کیا دین ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟

  • 845
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1910

سوال

(98) کیا دین ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فضیلۃ الشیخ! بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب ان کی اپنے دین سے وابستگی ہے اور وہ اس سلسلے میں یہ شبہ پیش کرتے ہیں کہ مغرب نے جب دین کو خیر باد کہہ کر آزادی حاصل کی تو اس نے بے پناہ مادی ترقی کی، اسی طرح اپنے شبہ کی تائید میں وہ یہ بات بھی پیش کرتے ہیں کہ مغرب میں بہت بارشیں اور فصلیں ہوتی ہیں تو آنجناب کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

ایسی بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جس کا ایمان کمزور ہو یا جو ایمان سے محروم ہو نیزجو تاریخ کے بارے میں جاہل اور اسباب نصرت سے ناواقف ہو۔ اسلام کے ابتدائی دور میں امت اسلامیہ جب اپنے دین سے وابستہ تھی، تو اسے عزت وسربلندی، قوت اور زندگی کے تمام میدانوں میں غلبہ حاصل تھا، بلکہ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مغرب نے تمام علوم و فنون میں مسلمانوں کی ابتدائے اسلام کی ترقی ہی سے استفادہ کیا ہے لیکن مسلمانوں نے جب اپنے دین کے بہت سے حصے کو چھوڑ دیا، اللہ تعالیٰ کے دین میں عقیدے اور قول و فعل کے اعتبار سے بہت سی ایسی باتیں ایجاد کر لیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں، اس کی پاداش میں وہ ترقی کے میدان میں بہت پیچھے رہ کر پسماندگی کا شکار ہوگئے۔ ہمیں یقینی طور پر علم ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہم اپنے اسلاف کی طرح اپنے دین سے وابستہ ہو جائیں تو ہمیں بھی عزت وسربلندی نیز دنیا کے تمام لوگوں پر غلبہ حاصل ہو سکتا ہے۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ  نے ہرقل شاہ روم سے، جس کی سلطنت اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی، گفتگو کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے حالات بیان کیے تو ہرقل نے کہا تھا: ’’تم جو کچھ کہہ رہے ہو اگر یہ بات سچی ہے تو یہ شخص میرے ان دونوں قدموں کے نیچے کی زمین کا عنقریب مالک بن جائے گا۔‘‘ ابوسفیان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جب ہرقل کے دربار سے باہر نکلا تو کہنے لگا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ بہت مضبوط ہوگیا ہے کہ رومیوں کا بادشاہ بھی ان سے ڈرنے لگا ہے۔(صحیح البخاري، بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہﷺ … حدیث: ۷)

مغرب کی کافر اور ملحد حکومتوں کو صنعتوں وغیرہ میں جو ترقی حاصل ہوئی ہے، ہمارا دین اس کی راہ کسی صورت میں مانع اور حاجز نہیں۔ اگر ہم اس کی طرف توجہ دیں تو ہم بھی صنعت وحرفت کے میدان میں ترقی کر سکتے ہیں لیکن افسوس کہ ہم نے دنیا کو بھی ضائع کر دیا اور دین کو بھی ورنہ دین اسلام دنیوی ترقی کا مخالف نہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّةٍ وَمِن رِباطِ الخَيلِ تُرهِبونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُم...﴿٦١﴾... سورة الأنفال

’’اور ان (کافروں کے مقابلے) کے لیے تم مقدور بھر قوت اور جنگی گھوڑے تیار رکھو جن سے تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرائے رکھو۔‘‘

اور فرمایا:

﴿هُوَ الَّذى جَعَلَ لَكُمُ الأَرضَ ذَلولًا فَامشوا فى مَناكِبِها وَكُلوا مِن رِزقِهِ...﴿١٥﴾... سورة الملك

’’وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم ( یعنی تابع) کردیا، لہٰذا تم اس کی راہوں میں چلو پھرو اور اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ۔‘‘

اور فرمایا:

﴿هُوَ الَّذى خَلَقَ لَكُم ما فِى الأَرضِ جَميعًا...﴿٢٩﴾... سورة البقرة

’’وہی تو ہے جس نے سب چیزیںـ، جو زمین میں ہیں، تمہارے لیے پیدا کیں۔‘‘

علاوہ ازیں اور بھی بہت سی آیات کریمہ ہیں جو واشگاف انداز میں یہ اعلان کر رہی ہیں کہ انسان کو کمانا چاہیے، عمل کرنا چاہیے اور فائدہ حاصل کرنا چاہیے لیکن دین کو ہاتھ سے جھوڑ کر نہیں۔ جہاں تک ان کافر امتوں کا تعلق ہے تو اپنی اصل کے اعتبار ہی سے کافر ہیںاورجس دین کے یہ دعوے دار ہیں وہ دین

ہی سرے سے باطل ہے دراصل ان کا دین اور الحاددونوں برابر ہیں، دونوں میں کوئی فرق نہیں، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے:

﴿ وَمَن يَبتَغِ غَيرَ الإِسلـمِ دينًا فَلَن يُقبَلَ مِنهُ...﴿٨٥﴾... سورة الأنفال

’’اور جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے، وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘

اہل کتاب یعنی یہود ونصاریٰ کو دیگر کفار کی نسبت اگرچہ کچھ امتیاز حاصل ہے، لیکن آخرت کے اعتبار سے ان میں اور دیگر کفار میں کوئی فرق نہیں، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا کر فرمایا تھا: ’’کہ اس امت کا جو یہودی یا عیسائی میرے بارے میں سنے اور پھر میرے لائے ہوئے دین کی پیروی نہ کرے تو وہ جہنمی ہوگا۔‘‘(صحیح مسلم، الایمان، باب وجوب الایمان برسالة نبینا محمدﷺ… حدیث ۱۵۳)

بہرحال یہ تمام کے تمام لوگ کافر ہیں، خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی اور وہ بھی جو ان کی طرف منسوب نہ ہوں، یعنی عقیدئہ توحید کے علاوہ کسی اور عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں۔

جہاں تک بارشوں وغیرہ کی کثرت کا تعلق ہے، تو یہ صورت انہیں ابتلاء وآزمائش کی شکل میں حاصل ہوتی ہے اور پھر ان کے حصے کی اچھی اچھی چیزیں انہیں دنیا ہی میں مل جاتی ہیں جب کہ آخرت میں ان کے لیے کچھ نہ ہوگا جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  سے اس وقت فرمایا تھا جب انہوں نے آپ کو دیکھا کہ چٹائی پر لیٹنے کی وجہ سے آپ کے جسم اطہر پر نشان پڑ چکے ہیں، یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ  رونے لگے اور عرض کرنے لگے: اے اللہ کے رسول! ایرانی و رومی تو عیش وعشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور آپ اس حال میں ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

« يا عمر هؤلاء قومَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبا تُهُمْ فِی حياتهمِ الدُّنْيَا أما ترضی أن تکون لهم الدنيا ولنا الأخرة»(صحیح البخاري، المظالم، باب الغرفة والعلية المشرفة… ح:۲۴۶۸)

’’اے عمرؓ! یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کی اچھی چیزیں دنیا ہی میں جلدی سے دے دی گئی ہیں کیا تم کو یہ بات پسند نہیں کہ ان کے لئے دنیا ہو اور ہمارے لئے آخرت کی سرخروئی و سعادت مندی۔‘‘

پھر ان ملکوں میں قحط، آفتیں، زلزلے اور ہلاکت خیز آندھیاں بھی تو آتی رہتی ہیں جن کی خبریں ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے دنیا بھر میں نشر ہوتی رہتی ہیں، ہمیں لگتا ہے کہ سوال کرنے والا نابینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بصیرت سے محروم کردیا ہے اور وہ واقعہ اور حقیقت کو قطعاً نہیں جانتا۔ میری نصیحت یہ ہے کہ اسے فوراً ان تصورات سے توبہ کرنی چاہیے قبل اس کہ اسے اچانک موت آجائے اور وہ اس حال میں اپنے رب کی طرف لوٹ جائے۔ یہ حقیقت کو اچھی طرح اس کے ذہن نشیں ہوجانا چاہئے کہ ہمیں عزت، سربلندی، غلبہ اور قیادت دین اسلام کی طرف حقیقی طور پر رجوع کرنے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے جس میں قول و فعل میں ہم آہنگی ہو اور ہمیں یہ حقیقت بھی اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ کفار جس بات پر عمل پیراہیں وہ باطل ہے، حق نہیں ہے اور پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ہمیں بتلادیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں جو خوش حالی عطا فرمائی ہے، یہ آزمائش اور امتحان ہے اور ان کے حصے کی اچھی چیزیں انہیں دنیا ہی میں دے دی گئی ہیں حتیٰ کہ جب وہ مر کرجائیں گے اوردنیا میں حاصل شدہ ان خوش حالیوں کو چھوڑ جائیں گے تو ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا، جس کی وجہ سے اس کی حسرت اور غم وحزن میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ انہیں دنیا میں نعمتوں سے نواز دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ زلزلوں، قحط سالیوں، آندھیوں، طوفانوں اور سیلابوں وغیرہ سے محفوظ نہیں ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اس سوال کرنے والے کو ہدایت و توفیق عطا فرمائے، حق کی طرف لوٹادے اور ہم سب کو دین کی بصیرت سے سرفراز فرمائے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ175

محدث فتویٰ

تبصرے