السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل ڈاکٹروں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچہ لڑکا ہے یا لڑکی جب کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَيَعلَمُ ما فِى الأَرحامِ...﴿٣٤﴾... سورة لقمان
’’اور وہی (حاملہ کے) پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے (کہ نر ہے یا مادہ)۔‘‘
چنانچہ تفسیر ابن جریر میں امام مجاہد سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا کہ اس کی بیوی کیا جنے گی اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔ امام قتادہ رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح مروی ہے؟ ان میں تطبیق کیسے ہوگی، نیز یہ فرمائیں کہ ارشاد باری تعالیٰ ﴿فِى الأَرحامِ﴾ کے عموم کا مخصص کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے کے بارے میں گفتگو سے قبل میں اس بات کو بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ قرآن کریم کی صراحت امر واقع سے متعارض ہو اور اگر کوئی امر واقع بظاہر قرآن مجید کے خلاف ہو تو امر واقع محض دعویٰ ہوگا جس کی کوئی حقیقت نہیں یا قرآن مجید کا تعارض صریح نہیں ہوگا کیونکہ قرآن مجید کی صراحت اور حقیقت واقع دو قطعی امر ہیں اور دو قطعی چیزوں میں کبھی بھی تعارض نہیں ہو سکتا۔
اس وضاحت کے بعد ہم یہ کہیں گے کہ بیان کیا جاتا ہے کہ اطباء دقیق آلات کے استعمال سے حاملہ کے پیٹ کی چیزوں کو معلوم کرنے لگے ہیں کہ وہ نر ہے یا مادہ۔ اگر یہ بات باطل ہے تو پھر اس کے بارے میں گفتگو کی ضرورت ہی نہیں اور اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر بھی آیت قرآنی کے خلاف نہیں ہے کیونکہ آیت قرآنی ایک غیبی امر پر دلالت کرتی ہے، جو آیت میں مذکور پانچ باتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علم سے متعلق ہے اور جنین سے متعلق غیبی امور کہ ماں کے پیٹ میں اس کی مدت کی مقدار کتنی ہوگی، اس کی زندگی، اس کے عمل اور رزق کی مقدار کتنی ہوگی، شقاوت اور سعادت کے اعتبار سے اس کی کیا کیفیت ہوگی اور یہ نر ہوگا یا مادہ۔ یہ تمام امور تخلیق سے قبل غیبی ہیں، جب کہ تخلیق کے بعد تو یہ علم حاضر ہوگیا، البتہ یہ ضرور ہے کہ اس وقت جنین تین اندھیروں میں مستور ہوتا ہے اگر ان اندھیروں کو زائل کر دیا جائے تو اس کا معاملہ واضح ہو جاتا ہے اور یہ بات کوئی بعید نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسی قوی شعاعیں پیدا کر رکھی ہیں جو ان اندھیروں کو پھاڑ دیتی ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ جنین نر ہے یا مادہ اور آیت کریمہ میں نر یا مادہ کے علم کے بارے میں کوئی تصریح نہیں، اسی طرح سنت میں بھی ایسی کوئی تصریح موجود نہیں ہے کہ اس علم سے مراد نر یا مادہ کا علم ہے۔
سائل نے ابن جریر کے حوالے سے امام مجاہد رحمہ اللہ کی جو یہ روایت ذکر کی ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا کہ اس کی بیوی کیا جنے گی؟ تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے، یہ روایت منقطع ہے کیونکہ امام مجاہد رحمہ اللہ تابعین میں سے ہیں۔ امام قتادہ رحمہ اللہ نے جو تفسیر بیان کی ہے تو ممکن ہے کہ اسے اس بات پر محمول کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے اختصاص کا تعلق تخلیق سے پہلے کا ہے اور تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں دوسروں کو بھی معلوم کرا دیتا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے سورئہ لقمان کی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’اسی طرح اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ آئندہ ان ارحام سے کیا کچھ پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن جب جنین کے بارے میں وہ حکم دے دیتا ہے کہ یہ نر ہے یا مادہ، بدبخت ہے یا خوش بخت تو وہ یہ باتیں اس جنین کے ساتھ موکل فرشتوں کو اور اپنی مخلوق میں سے جسے چاہے معلوم کروا دیتا ہے۔‘‘
آپ نے جو یہ پوچھا ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ: ﴿مَا فِی الْاَرْحَامِ﴾ میں عموم کا مخصص کیا ہے، تو ہم عرض کریں گے کہ اگر آیت تخلیق کے بعد نر یا مادہ کو بیان کرتی ہے، تو مخصص انسانی حس اور امر واقع ہیں۔ علمائے اصول نے بیان کیا ہے کہ کتاب وسنت کے عموم کے مخصصات نص یا اجماع یا قیاس یا عقل ہیں، علمائے اصول کا کلام اس بارے میں معروف ہے۔ اگر آیت کا تعلق تخلیق سے قبل کی حالت سے ہے، تو پھر یہ اس بات کے معارض نہیں ہے جو جنین کے نر یا مادہ کے معلوم ہو جانے کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے۔
بحمدللہ امر واقع کے اعتبار سے نہ کوئی ایسی چیز موجود ہے اور نہ کبھی موجود ہوگی جو قرآن کریم کی صراحت کے خلاف ہو۔ دشمنانِ اسلام نے قرآن کریم پر طعن وتشنیع کرتے ہوئے، ایسے امور کی نشان دہی کی ہے جو قران کریم کے ساتھ ظاہراً متعارض ہیں، تو اس کی وجہ یا تو کتاب اللہ کے بارے میں ان کے فہم کا قصور ہے یا ان کی نیت میں خرابی ہے۔ جہاں تک اہل دین و علم کا تعلق ہے تو وہ بحث و تحقیق کے بعد اس حقیقت تک پہنچ گئے ہیں، جس کے سامنے ان لوگوں کے تمام شکوک وشبہات ختم ہو جاتے ہیں۔ وللہ الحمد والمنۃ۔
اس مسئلے میں کچھ لوگ افراط اور تفریط میں مبتلا ہیں اور کچھ معتدل ہیں۔ کچھ لوگوں نے قرآن مجید کے ظاہر کو لے لیا ہے، جو صریح نہیں ہے اور پھر انہوں نے اس کے خلاف ہر واقعی اور یقینی امر کی مخالفت کی ہے اور اس طرح انہوں نے اپنے قصور فہم اور کوتاہی کی وجہ سے اپنے آپ کو مورد الزام قرار دے لیا ہے یا پھر قرآن کریم پر اعتراض کا باعث بنے ہیں جو ان کی نظر میں یقینی اور امر واقع کے خلاف ہے۔ کچھ لوگوں نے اس چیز سے اعراض کیا ہے جس پر قرآن کریم کی دلالت ہے اور انہوں نے محض مادی امور کو اختیار کر لیا ہے اور اس طرح یہ ملحد بن گئے ہیں۔
معتدل وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی دلالت کو لیا ہے اور امر واقع کے ساتھ اس کی تصدیق کی ہے اور جان لیا ہے کہ قرآن کریم کی تصریح اور امر واقع دونوں ہی برحق ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ تصریح قرآن کریم اس امر معلوم کے مخالف ہو جسے آنکھوں سے مشاہدہ کیا جا رہا ہو، گویا انہوں نے منقول اور معقول دونوں پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح انہوں نے اپنے دین اور عقل کو بچا لیا اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی اس حق کی طرف راہنمائی فرما دی جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا بلاشبہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے صراط مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرما دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے مومن بھائیوں کو ہدایت کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ہدایت کرنے والے، ہدایت یافتہ اور اصلاح وتجدید کی دعوت دینے والا مصلح ونیک قائد بناکر سرخروئی عطاء فرمائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب