السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اخلاص کے کیا معنی ہیں اور اگر عبادت سے مقصود کوئی اور چیز ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کا عبادت سے مقصود تقرب الٰہی اور جنت کا حصول ہو اور اگر عبادت سے مقصود کچھ اور ہو تو اس کی کئی قسمیں ہو سکتی ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۱۔ عبادت سے مقصود اگر غیر اللہ کا تقرب اور لوگوں کی طرف سے تعریف و توصیف کا حصول ہو تو اس سے عمل ضائع ہو جاتاہے کیونکہ یہ شرک ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
«اَنَا اَغْنَی الشُّرَکَاءِ عَنِ الشِّرْکِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا اَشْرَکَ فِيْهِ مَعِیَ غَيْرِی تَرَکْتُهُ وَشِرْکَهُ»(صحیح مسلم، الزهد والرقائق، باب تحریم الریاء ح: ۲۹۸۵۔)
’’میں تمام شرکاء کی نسبت شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں، جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں اس نے میرے ساتھ کسی غیر کو بھی شریک کر لیا تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑکر دست بردارہوجاتا ہوں۔‘‘
۲۔ عبادت سے مقصود اقتدار، منصب یا مال وغیرہ کی دنیوی غرض کا حصول ہو، تقرب الٰہی کا حصول مقصود نہ ہو تو یہ عمل بھی رائیگاں جاتا ہے اور اس کا تصرف انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کا سبب نہیں بنتا، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مَن كانَ يُريدُ الحَيوةَ الدُّنيا وَزينَتَها نُوَفِّ إِلَيهِم أَعمـلَهُم فيها وَهُم فيها لا يُبخَسونَ ﴿١٥﴾ أُولـئِكَ الَّذينَ لَيسَ لَهُم فِى الءاخِرَةِ إِلَّا النّارُ وَحَبِطَ ما صَنَعوا فيها وَبـطِلٌ ما كانوا يَعمَلونَ ﴿١٦﴾... سورة هود
’’جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں، ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی، یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آتش (جہنم) کے سوا اور کچھ نہیں اور جو عمل انہوں نے دنیا میں کیے سب برباد اور جو کچھ وہ کرتے رہے، سب ضائع ہوا۔‘‘
اس میں اور پہلی قسم میں فرق یہ ہے کہ پہلی قسم میں مقصود یہ تھا کہ اس کی تعریف کی جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا ہے جب کہ دوسرے شخص کا مقصود یہ نہیں ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں، لوگوں کی تعریف کرنے یا نہ کرنے کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں بلکہ اس کا مطمع نظر تقرب الہی کے بجائے کچھ اور ہی ہے جس کا تذکرہ ابھی ابھی کیا جاچکا۔
۳۔ عبادت سے مقصود تقرب الٰہی کے حصول کے ساتھ ساتھ کوئی دنیوی غرض بھی ہو، مثلاً: عبادت کے لیے طہارت کی نیت کے وقت جسمانی بشاشت اور نظافت کا ارادہ بھی کر لے، نماز ادا کرتے وقت جسمانی ورزش کا بھی ارادہ کر لے، روزے کے ساتھ جسمانی وزن کے کم کرنے اور فضلات کےدور کرنے کا بھی قصد کرلے اور حج کے ساتھ مشاعر اور حجاج کی زیارت کا ارادہ بھی کر لے تو اس سے اخلاص کے اجر میں کمی آجاتی ہے اور اگرچہ غالب نیت عبادت ہی کی ہے تو اس سے کمال اجر و ثواب میں کمی آجاتی ہے لیکن وہ اسے گناہ یا جھوٹ کے ساتھ نقصان مضرت رسانی کا باعث نہ ہوگا کیونکہ حجاج کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿لَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ أَن تَبتَغوا فَضلًا مِن رَبِّكُم...﴿١٩٨﴾... سورة البقرة
’’اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ (حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو۔‘‘
اگر اغلب نیت عبادت کی نہ ہو تو اسے آخرت میں اس کا کوئی ثواب نہیں ملے گا، اسے اس کا بدلہ دنیا ہی میں مل جائے گا اور یہ بھی خدشہ ہے کہ وہ اس کے لئے گناہ گار بننے کا باعث بن جائے کیونکہ اس نے عبادت کو، جو اعلیٰ مقصود ہے، حقیر دنیا کے حصول کا وسیلہ کے طورپر اختیارکیا۔ ایسا شخص گویا کہ ان لوگوں کی طرح ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَمِنهُم مَن يَلمِزُكَ فِى الصَّدَقـتِ فَإِن أُعطوا مِنها رَضوا وَإِن لَم يُعطَوا مِنها إِذا هُم يَسخَطونَ ﴿٥٨﴾... سورة التوبة
’’اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ (تقسیم) صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں اگر ان کو اس میں سے (خاطر خواہ) مل جائے تو خوش رہیں اور اگر (اس قدر) نہ ملے تو جھٹ خفا ہو جاتے ہیں۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک آدمی جہاد کا ارادہ رکھتا ہے مگر جہاد سے اس کا مقصود دنیوی مال کا حصول ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لَا اَجْرَ لَهُ»(سنن ابي داؤد، الجهاد، باب فیمن یغزو ویلتمس الدنیا، ح: ۲۵۱۶ وسنن النسائی، الجهاد، باب من غزا یلتمس الاجر والذکر، ح: ۳۱۴۲)
’’اسے کوئی اجر نہیں ملے گا۔‘‘
اس شخص نے اپنے سوال کو تین بار دہرایا ہر بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا: ’’اسے کوئی اجر نہیں ملے گا۔‘‘ صحیحین میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ کَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيْبُهَا، اَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ اِلٰی مَا هَاجَرَ اِلَيْهِ»(صحیح البخاري، بدء الوحی، باب کیف کان بداءالوحی الی رسول اللہﷺ، ح:۱ وصحیح مسلم، الامارة، باب قولهﷺ انما الاعمال بالنیة… ح:۱۹۰۷ واللفظ لمسلم)
’’جس شخص کی ہجرت دنیا کے حصول یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اس طرف ہوگی جس طرف اس نے ہجرت کی۔‘‘
اگر اس کے نزدیک دونوں امر مساوی ہوں یعنی نہ تو عبادت کی نیت غالب ہو اور نہ غیر عبادت کی تو اس کا معاملہ محل نظر ہے۔ زیادہ صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا، اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جو عمل اللہ کے لیے بھی کرتا ہے اور غیر اللہ کے لیے بھی۔
اس قسم اور اس سے پہلی قسم میں فرق یہ ہے کہ اس سے پہلے قسم میں غیر عبادت کی غرض بالضرورۃ حاصل ہے اور اس کا ارادہ اس کے عمل کے ساتھ بالضرورۃ وجود پذیرہواہے مرادیہ ہے کہ اس نے اس دنیوی امر کا ارادہ کیا جو اس کے عمل کا قدرتی تقاضا ہے۔
اگر کہا جائے کہ اس قسم میں یہ جاننے کے لیے معیار کیا ہے کہ عبادت کا پہلو زیادہ غالب ہے یا غیرعبادت کا؟ اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ معیار یہ ہے، خواہ حاصل ہو یا نہ ہو کہ عبادت کے سوا اس کا کوئی دوسرا مقصود ہے ہی نہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے عمل میں عبادت کی نیت زیادہ غالب ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو غالب نیت غیر عبادت کی ہوگی۔
بہرحال نیت، جو دل کے ارادے کا نام ہے، کا معاملہ بہت عظیم اور اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ نیت ہی انسان کو صدیقین کے درجے تک پہنچا دیتی ہے اور نیت ہی انسان کو پست سے پست درجے تک گرا دیتی ہے۔ بعض سلف کا قول ہے: ’’اخلاص کی وجہ سے مجھے اپنے نفس کے خلاف جس طرح جہاد کرنا پڑا، کسی اور چیز کی وجہ سے مجھے ایسا جہاد نہیں کرنا پڑا۔‘‘
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اخلاص نیت اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب