سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(106) غیر اللہ سے مدد مانگنے کا حکم

  • 8365
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2131

سوال

(106) غیر اللہ سے مدد مانگنے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی ایسے لوگوں میں رہ رہا ہے جو غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ تو اس کے لئے ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟کیا اس کے لئے واجب ہے کہ انہیں چھوڑ کر کہیں اور چلاجائے؟کیا ان لوگوں کا یہ شرک غلیظ ہے اور ان سے دوستی حقیقی کافروں سے دوستی کی طرح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جن لوگوں کے درمیان آپ رہ رہے ہو۔اگر ان کا حال اسی طرح ہے۔جس طرح آپ نے بیان کیا ہے۔کہ وہ غیر اللہ سے استغاثہ کرتے ہیں۔ اور وہ مردوں غائب لوگوںدرختوں پتھر یا ستاروں وغیرہ سے مدد مانگتے ہیں تو یہ لوگ شرک اکبر کے مرتکب مشرک ہیں۔جس کی وجہ سے یہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔جس طرح کفار سے دوستی جائز نہیں ان سے بھی جائز نہیں۔ان کے پیچھے نماز بھی جائز نہیں۔ان میں رہنا سہنا اور اقامت اختیار کرنا بھی جائز نہیں سوائے اس شخص کے جو دلیل کےساتھ انہیں حق کی طرف دعوت دے اور اُمید رکھے کے یہ لوگ اس کی دعوت کو قبول کرلیں گے۔ اور اس کے ہاتھوں ان کے حالات کی دینی اعتبار سے اصلاح ہوجائےگی۔ اگر ایسی صورت حال نہ ہو تو پھر ان کو چھوڑ کر ایسے لوگوں میں جا شامل ہونا واجب ہے جن کے ہاتھ یہ اسلام کے اصول وفروع کے مطابق عمل کرسکیں۔اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کا احیاءکرسکے اور اگر  ایسے لوگ بھی میسر نہ ہوں۔ تو پھر تمام فرقوں کوچھوڑ دےخواہ اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے جیسا کہ حضرت حذیفہ   رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ  سے روایت ہے:

كان الناس يسألون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير، وكنت أسأله عن الشر، مخافة أن يدركني، فقلت: يا رسول الله، إنا كنا في جاهلية وشر، فجاءنا الله بهذا الخير، فهل بعد هذا الخير من شر؟ قال: (نعم). قلت: وهل بعد ذلك الشر من خير؟ قال: (نعم، وفيه دخن). قلت: وما دخنه؟ قال: (قوم يهدون بغير هديي، تعرف منهم وتنكر). قلت: فهل بعد ذلك الخير من شر؟ قال: (نعم، دعاة على أبواب جهنم، من أجابهم إليها قذفوه فيها). قلت: يا رسول الله صفهم لنا، قال: (هم من جلدتنا، ويتكلمون بألسنتنا). قلت: فما تأمرني إن أدركني ذلك؟ قال: (تلزم جماعة المسلمين وإمامهم). قلت: فإن لم يكن لهم جماعة ولا إمام؟ قال: (فاعتزل تلك الفرق كلها، ولو أن تعضَّ بأصل شجرة، حتى يدركك الموت وأنت على ذلك).

(صحیح بخاری۔کتاب الفتن۔حدیث:7084)

کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے لیکن میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا۔ اس خوف سے کہ کہیں میری زندگی میں ہی شر نہ پیدا ہو جائے۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور شر کے دور میں تھے پھر اللہ تعالیٰ ٰ نے ہمیں اس خیر سے نوازا تو کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا زمانہ ہو گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ میں نے پوچھا کیا اس شر کے بعد پھر خیر کا زمانہ آئے گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں لیکن اس خیر میں کمزوری ہو گی۔ میں نے پوچھا کہ کمزوری کیا ہو گی؟ فرمایا کہ کچھ لوگ ہوں گے جو میرے طریقے کے خلاف چلیں گے ‘ ان کی بعض باتیں اچھی ہوں گی لیکن بعض میں تم برائی دیکھو گے۔ میں نے پوچھا کیا پھر دور خیر کے بعد دور شر آئے گا؟ فرمایا کہ ہاں جہنم کی طرف سے بلانے والے دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہوں گے ‘ جو ان کی بات مان لے گا وہ اس میں انہیں جھٹک دیں گے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! ان کی کچھ صفت بیان کیجئے۔ فرمایا کہ وہ ہمارے ہی جیسے ہوں گے اور ہماری ہی زبان عربی بولیں گے۔ میں نے پوچھا پھر اگر میں نے وہ زمانہ پایا تو آپ مجھے ان کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ رہنا۔ میں نے کہا کہ اگر مسلمانوں کی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا کوئی امام ہو؟ فرمایا کہ پھر ان تمام لوگوں سے الگ ہو کر خواہ تمہیں جنگل میں جا کر درختوں کی جڑیں چبانی پڑیں یہاں تک کہ اسی حالت میں تمہاری موت آ جائے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی بن باز رحمہ اللہ

جلددوم 

تبصرے