یمن ک بعض علاقوں میں کچھ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں۔ جو سادات (شاہ صاحب) کہلاتے ہیں۔یہ لوگ شعبدہ بازی اور کئی ایسے کام کرتے ہیں۔ جو دین کے منافی ہیں۔ اور دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں لوگوں کے پیچیدہ اور مشکل امراض کے علاج کی قدرت حاصل ہے۔ اور اس کی دلیل کے طور پر اپنے ہی جسموں میں خنجر چبھو لیتے ہیں۔ یا اپنی زبانوں کوکاٹ کر بغیر تکلیف کے انہیں دوبارہ جوڑ لیتے ہیں۔ان میں سے کچھ لو گ نماز پڑھتے ہیں۔اور کچھ نہیں پڑھتے۔ یہ اپنے لئے تو یہ جائز قرار دیتے ہیں۔ کہ کسی دوسرے خاندان میں شادی کرلے لیکن کسی ووسرے شخص کو اپنے خاندان میں شادی کی اجازت نہیں دیتے۔ مریضوں کے لئے دعاء کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ یا اللہ 'یا فلاں.... یہاں اپنے آباواجداد میں سے ایک شخص کا نام لیتے ہیں۔۔۔ماضی میں لوگ ان کے بے حد تعظیمی کرتے اور انہیں غیر معمولی انسان سمجھتے تھے۔ بلکہ انہیں مقربین بارگاہ الٰہی اور رجال اللہ کے نام سے موسوم کرتے تھے۔ اب لوگ ان کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔ کچھ تو ان کے مخالف ہیں خاص طور پر نوجوان اور بعض طالب علم ان کی مخالفت کرتے ہیں۔اور کچھ لوگ بدستور ان سے وابستگی رکھتے ہیں۔خصوصا بڑی عمر کے لوگ اور غیر طالب علم۔۔۔آنجناب سے اُمید ہے کہ اس مسئلہ کی حقیقت کوبیان فرمایئں گے؟
مذکورہ بالا اور اس طرح کے لوگ ان صوفیاء میں سے ہیں۔جن کے اعمال منکر اور جن کے تصرفات باطل ہیں۔اور یہ ان نجومیوں میں سے ہیں جن کے بارے میں نبی کریمﷺ نے یہ فرمایا ہے:
(صحیح مسلم کتاب السلام باب تحریم الکھانۃ واتیان الکھان ح:2230۔واحمد فی المسند 4/68۔5/380)
''جس شخص نے کسی نجومی کے پاس جا کر کچھ پوچھا تو ا س کی چالیس روز تک نماز قبول نہ ہوگی۔''
اس لئے کہ یہ لوگ علم غیب کا دعویٰ کرتے اورجنوں سے خدمت لیتے ہیں۔اس لئے حدیث شریف کے پیش نظر ان لوگوں کے پاس جانا اور ان سے سوال پوچھنا جائز نہیں ہے۔اسی طرح نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ:
(سنن ابی دائود کتاب الطب باب فی الکھان ح:3904)واخرجہ الترمذی فی الجامع رقم 135 وابن ماجۃ فی السنن رقم:639 واحمد فی المسند 2/408۔476)
''جو شخص کسی کاہن ونجومی کے پاس کوئی سوال پوچھنے کے لئے جائے اور پھر اس کے جواب کی تصدیق بھی کرے تو اس نے اس شریعت کا انکار کیا جسے محمد ﷺ پر نازل کیا گیا ہے۔''
ایک دوسری روایت میں کاہن کے ساتھ نجومی کا لفظ بھی ہے۔ان کا غیر اللہ کا پکارنا اور غیر اللہ سے فریاد کرنا یہ گمان کرنا کہ ان کے آباواجداد اس کائنات میں تصرف رکھتے یا مریضوں کو شفا ء دیتے یا مرنے اور غائب ہونے کے باوجود دعاء کو سنتے ہیں۔یہ تو سب کچھ اللہ کی ذات گرامی کے ساتھ کفر اور مشرکین کا عمل ہے۔فرض ہے کہ ان کا انکار کیا جائے۔ان کے پا جایا جائے نہ ان سے سوال پوچھا جائے اور نہ ان کی تصدیق کی جائےکیونکہ ایک طرف انکے اعمال کاہنوں اور نجومیوں کے اعمال ہیں۔تو دوسری طرف ان مشرکین کے اعمال ہیں۔جو غیر اللہ کے پجاری ہیں۔غیر اللہ سے استغاثہ کرتے ہیں۔اللہ کو چھوڑ کر جنوں فوت شدگان اور دیگر غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔جن کی طرف یہ اپنے آپ کو منسوب کرتے اور انہیں آباواجداد قرار دیتے ہیں۔ یا اسی قسم کے دیگر لوگوں سے یہ مدد مانگتے ہیں۔جن کے بارے میں ان کاگمان یہ ہے کہ انہیں ولایت وکرامت حاصل ہے۔ یہ تمام اعمال شعبدہ بازوں کاہنوں اور نجومیوں کے اعمال ہیں۔ ہماری شریعت مطہرہ ان اعمال سے نہایت سختی سے منع کرتی ہے۔
باقی رہے یہ ان کے تصرفات کہ یہ اپنے ہی جسم میں خنجر پیوست کرلیتے یا اپنی زبان کوکاٹ کر پھر درست کرلیتے ہیں تو یہ صرف فریب کاری اور دھوکادینا ہے۔کیونکہ یہ سب کچھ اسی سحر کی جادوگری اور کرشمہ سازی ہے نصوص کتاب وسنت نے جسے حرام ٹھرایا یہ تو اسی طرح کی بات ہے کہ جو اللہ نے فرعون کے جادوگروں کے بارے میں فرمائی ہے۔کہ :
''تو ناگہاں ان کی رسیاں اور لاٹھیاں موسیٰ علیہ السلام کے خیال میں ایسے آنے لگیں کہ وہ (میدان میں ادھر ادھر ) دوڑ رہی ہیں۔''
تو ان لوگوں نے جادو گری اور شعبدہ بازی کہانت اور اس کے ساتھ ساتھ شرک اکبر یعنی غیر اللہ سے استعانت غیر اللہ سے استغاثہ علم غیب کا دعویٰ اور کائنات میں تصرف کے دعویٰ کو یکجا کرلیا ہے۔اور یہ تمام شرک اکبر اور صریح کفر کی قسمیں ہیں۔ اور شعبدہ بازی کے وہ اعمال ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ ٰ نے حرام قرار دیا ہے۔نیز دعویٰ علم غیب ہے حالانکہ بجز اللہ سبحانہ وتعالیٰ ٰ کے کوئی شخص علم غیب نہیں جانتا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:
‘‘(اے پیغمبرﷺ!)آپ کہہ دیجئے کہ آسمان اور زمین والوں میں سے اللہ کے سوا کوئی غیب کی باتیں نہیں جانتے!
ان كے حالات جاننے والے تمام مسلمانوں پر یہ فرض ہے۔ کہ وہ ان کا انکار کریں ان کے سوء تصرف کو بیان کریں۔اور بتایئں کہ یہ منکر ہے۔اور ان کے اعمال شرکیہ وکفریہ ہیں۔ نیز یہ شعبدہ بازی کہانت نجومیت اور دعویٰ علم غیب پر مشتمل ہیں۔اور یہ تمام باتیں ضلالت گمراہی کفر ااور باطل کی قسمیں ہیں۔ان اعمال سے اور ان اعمال کے کرنے والوں سے دوررہنافرض ہے۔
باقی رہی یہ بات کے اپنی بچیوں کا دوسروں کو رشتہ نہیں دیتے جب کہ دوسروں سے رشتہ لے لیتے ہیں۔تو یہ بھی جہالت اور ضلالت کی بات ہے۔ جس کی کوئی وجہ نہیں جس کی کوئی شرعی اصل نہیں ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:
‘‘لوگوہم نے تم کو ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیا اورتمہاری قومیں اورقبیلے بنائے تاکہ تم کوایک دوسرے کو شناخت کرو(اور)اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والاوہ ہے جوزیادہ پرہیزگارہے۔بےشک اللہ سب کچھ جاننے والا(اور)سب سے خبردارہے۔’’
اگر ان کاتعلق سادات یا بنی ہاشم سے ہوتوپھر بھی ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ اپنی بیٹیوں کے رشتے دوسرےخاندانوں کے لئے حرام قراردیں،یہ بھی ایک منکر امر اوررسول اللہﷺکے اس عمل کےمخالف ہے کہ آپﷺنےاپنی پھوپھی زادحضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سےکردیا تھا حالانکہ یہ اسدیہ ہیں۔اسی طرح آپﷺنےفاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا نکاح اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سےکردیا تھا حالانکہ یہ قریشی ہیں،اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عمررضی اللہ عنہ سے کردیا تھا حالانکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا تعلق بنوہاشم سے نہیں بلکہ بنوعدی سے ہے ۔الغرض اس طرح کے بے شمارواقعات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان کا موقف باطل اورسلف کےعمل کے مخالف ہے،لہذا واجب ہے کہ انہیں نصیحت کی جائے،اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں ڈرایا جائے اورکہا جائے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بارہ گاہ میں ان تمام امورسےتوبہ کریں جو اس کی شریعت مطہرہ کی خلاف ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اوران سب کو ہدایت سے نوازے!آمین
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب