کیا مسلمان کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ٰ کی بارگاہ میں اولیاء وصالحین کاوسیلہ پیش کرے؟ مجھے بعض علماء کا یہ قول معلوم ہوا ہے کہ اولیاء کے ساتھ وسیلہ پکڑنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ دعاء تو اللہ تعالیٰ ٰ ہی سے ہوتی ہے بعض علماء اس کے خلاف ہیں۔اس مسئلہ میں شریعت کا حکم کیا ہے؟
ولی ہر وہ شخص ہے۔جو اللہ تعالیٰ ٰ پر ایمان لائے۔اس سےڈریں اللہ تعالیٰ ٰ نے جو حکم دیا ہے اسے بجا لائے اور جس چیز سے منع کیا ہے۔اس سے رک جائے ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:
''سن رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں۔ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے(یعنی) وہ لوگ جو ایمان لائے اور پرہیز گار رہے۔''اللہ تعالیٰ ٰ کی بارگاہ میں اس کے اولیاء کے ساتھ وسیلہ پکڑنے کی کئی قسمیں ہیں:
1۔انسان کسی زندہ ولی سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اس کےلئے کشادگی رزق بیماری سے شفاء یا ہدایت وتوفیق کی اللہ تعالیٰ ٰ سے دعاء کرے۔تو یہ جائز ہے۔جیسا کہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے حضرات صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے نبی کریمﷺ سے یہ مطالبہ کیا تھا۔کہ آپ بارش کےلئے دعا فرمایئں۔چنانچہ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ ٰ سے بارش کےلئے دعاء فرمائی اللہ تعالیٰ ٰ نے آپ کی دعاء کو شرف قبولیت سے نوازا اور بارش نازل فرمادی۔اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ کے دو رخلافت میں حضرات صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے حضرت عباسرضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ سے بارش کےلئے دعاء کروائی۔حضرت عباسرضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ نے دعاء کی اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے دعاء پر آمین کہی۔اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔کہ نبی کریمﷺ کے عہد میں اور بعد میں بھی مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے حصول منفعت یادفع نقصان کےلئے اللہ تعالیٰ ٰ سے دعاء کرنے کا مطالبہ کرتے رہے۔
2۔اللہ تعالیٰ ٰ سے نبی کریمﷺ کی محبت آپﷺ کی اتباع اور اولیاء اللہ سے محبت کے وسیلہ سے دعاء کرے اور جیسا کہ مذکورہ بالاآیت ا س کی قطعی دلیل ہے۔اور وہ منسوخ بھی نہیں ہے امید ہے کہ آپ اس مسئلہ کی مکمل وضاحت فرمایئں گے۔
جواب۔اللہ تعالیٰ ٰ کی اپنی مخلوق کے بارے میں سنت یہ ہے۔ کہ اس نے مسببات کو اسباب کے ساتھ مربوط کردیا ہے۔چنانچہ ایجاد نسل کامباشرت سے ربط ہے فصل کے اگنے کا زمین میں بیج بونے اور اسے پانی کے ساتھ سیراب کرنے سے جلانے کا تعلق آگ سے ہے۔ اور غرق کرنے اور تر کرنے کا تعلق پانی سے۔الغرض اسی طرح دیگر اسباب مسببات ہیں ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے۔
''اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنایئں''
اور فرمایا
''اور ہم نچڑتے بادلوں سے موسلادھار مینہ برسایا۔تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں اور گھنے گھنے باغ''
اور فرمایا
''اور آسمانوں سے برکت والا پانی اُتارا اور اس سے باغ وبستان اگائے اور کھیتی کا اناج اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گابھا تہہ بہ تہہ ہوتا ہے۔(یہ سب کچھ) بندوں کو روزی دینے کےلئے (کیا ہے) اور اس (پانی) سے ہم نے شہر مردہ (یعنی زمین افتادہ) کوزندہ کیا ہے(بس ) اس طرح (قیامت کے روز) نکل پڑنا ہے۔''
اور فرمایا
''اور تم پر آسمان سے پانی برسادیا تاکہ تم کو اس سے (نیلا کر) پاک کردے اور شیطانی نجاست کو تم سے وور کردے اور اس لئے بھی کہ تمہارے دلوں کومضبوط کردے اور اس سے تمہارے پائوں جمائے رکھے۔''
یہ اور اسی طرح کی دیگر بہت سی آیات ہیں۔جن میں اللہ تعالیٰ ٰ نے مادی اسباب اور معنوی و مادی مسببات کوبیان کرکے ان میں ربط کو بیان فرمایا ہے۔ یعنی اسباب کو مسببات کاسبب بنادیا ہے۔اور دونوں کا تعلق اللہ تعالیٰ ٰ کے خلق اور قضاء وقدر سے ہے۔اسی طرح اللہ نے معنوی اسباب بھی پیدا فرمائے۔ جب کہ وہ اسباب کے بغیر بھی مسببات کے پیدا کرنے پر قادر ہے۔ لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ ٰ کی سنت یہ ہے۔کہ وہ اسباب کے ساتھ ہی مسببات کو پیدا کرتا اور وجود میں لاتا ہے۔اور اس میں مضمر حکمت کو بھی وہی جانتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے۔
''یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں۔اور اللہ حکیم وخبیر کی طرف سے یہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں۔''وہ یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور میں اس کی طرف سے تم کو ڈرانے والا اور خوش خبری دینے والا ہوں۔اور یہ کہ اپنے پروردیگار کےلئے بخشش مانگو اور اس کے آگے توبہ کرو وہ تم کو ایک وقت مقرر تک متاع نیک سے بہرہ مند کرے گا۔اور صاحب بزرگی کو اس کی بزرگی (کی داد) دےگا اور اگر تم رو گردانی کرو گے تو مجھے تمہارے بارے میں (قیامت کے) بڑے دن کے عذاب کاڈر ہے۔''
اپنے نبی ھود علیہ السلام کے زکر میں فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا۔
''اور اے میری قوم! اپنے پروردیگار سے بخشش مانگو پھر اس کے آگے توبہ کرو وہ تم پر آسمانوں سے موسلادھار بارش برسائےگا۔اور تمہاری طاقت پر طاقت بڑھائے گا۔اور (دیکھو) گناہ گار بن کررو گردانی نہ کرو۔''
اپنے نبی نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہاتھا:
''بھایئو! میں تمھیں کھلے طور پ نصیحت کرتا ہوں۔کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اور میرا کہامانو وہ تمہارے گناہ بخش دے گا۔جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آجاتا ہے۔ تو تاخیر نہیں ہوتی کاش تم جانتے ہوتے۔''
اللہ تعالیٰ ٰ نے اپنے انبیاء علیہ السلام سے زکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے اپنی امتوں کو دعوت دیتے ہوئے کہا۔
''ان کے پیغمبروں نے کہا کیا (تم کو) اللہ (کے بارے) میں شک ہے۔جو آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے۔؟وہ تمھیں اس لئے بُلاتا ہے۔کہ تمہارے گناہ بخش دے اور (فائدہ پہنچانے کے لئے) ایک مدت مقرر تک تم کو مہلت دے۔''
اللہ تعالیٰ ٰ نے یہ زکر فرمایا ہے کہ منافقوں کی ایک جماعت نے اپنے بھایئوں کے بارے میں یہ کہا جو غزوہ احد میں مارے گئے تھے کہ:
''اگر وہ ہمارے پاس رہتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے۔''
تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ ٰ نے اپنے رسول حضرت محمد ﷺ کو حکم دیا کہ وہ فرمادیں کہ:
''اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کی تقدیر میں ماراجانالکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے۔''
اللہ تعالیٰ ٰ نے بیان فرمایا کہ قتل نفس اپنے سبب کا مروہن ہے اور ہر مقتول اپنے وقت مقرر کے مطابق فوت ہونے والا ہے۔نہ کوئی اپنے وقت مقرر سے پہلے فو ت ہوسکتاہے اور نہ بغیر سبب کے اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
''جوشخص اس بات کو پسند کرے کے اس کے رزق میں کشادگی اور عمر میں درازی ہو تو وہ صلہ رحمی سے کام لے۔''
اگرچہ صحت کی حفاظت ونگہداشت کا جسمانی صحت اور بیماریوں کے مقابلے میں خصوصی کردار ہے۔ جیسا کہ سائل نے کہا ہے۔لیکن یہ اللہ تعالیٰ ٰ کے اذن اور تقدیر کے ساتھ ہے۔جیسا کہ پہلے سے اللہ تعالیٰ ٰ کے علم میں ہے۔اور وہ اس حفاظت ونگہداشت کو نتائج کا سبب بنادیتا ہے۔جیسا کہ اسباب اور مسببات کی ترتیب اس کی قضا اور قدر کے مطابق پہلے سے اس کے علم میں ہے۔اس سے واضح ہوا کہ اسباب کا مسببات میں دخل ہے۔اس اعتبار سے کہ اللہ تعالیٰ ٰ نے انہیں سبب بنادیا ہے۔اور اس اعتبار سے کہ اللہ تعالیٰ ٰ نے ان اسباب کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔تاکہ وہ ان مسببات کو مرتب کردے اس کے یہ معنی نہیں کہ نتائج کے سلسلے میں اسباب کی اپنی ذاتی اور مستقل تاثیر ہے۔بلکہ ان میں تاثیر اللہ تعالیٰ ٰ پیدا فرماتاہے۔اور اگر اللہ تعالیٰ ٰ اسباب کو ان میں ودیعت کئے ہوئے خواص سے محروم کرنا چاہے تو وہ کرسکتا ہے۔ جیساکہ اس نے آگ سے جلانے کے خاصہ کوسلب کرلیا۔اوراس نے اس کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نہ جلایا بلکہ دہکتی اور بھڑکتی ہوئی آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی والی بن گئی۔اسی طرح اس نے پانی سے غرق کرلینے کی صلاحیت کوسلب کرلیا اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم امن وسلامتی کے ساتھ دریاعبور کرگئی۔اور جب فرعون اور اس کے ساتھی اس دریا سے گزرنے لگے تو اس نے پانی کو یہ صلاحیت لوٹادی۔ اور انہیں غرق کردیا۔ تو قضا وقدر کے اعتبار سے مسببات اپنے اسباب کے ساتھ مرہون ہیں۔حتیٰ کہ حفاظت اور عدم حفاظت کے باوجود انسانوں کی عمریں درازی وکمی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ ٰ کےعلم کے مطابق ہیں۔لہذا سائل کا یہ کہنا کہ حفاظت ونگہداشت کا عمروں کی درازی وکمی سے کوئی تعلق نہیں ہے علی وجہ االاطلاق صحیح نہیں ہے۔کیونکہ جیسا کہ بیان کیا جاچکا ان کا بھی دخل ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب