سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(61) زمین کو ٹھیکے پر دینا

  • 8320
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-31
  • مشاہدات : 6635

سوال

(61) زمین کو ٹھیکے پر دینا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا زمین کو ٹھیکے پر دینا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زمین کو ایک معلوم قیمت کے بدلے ٹھیکے(کرائے)پر دینا تمام اہل علم کے نزدیک جائز ہے۔

رافع بن خدیج فرماتے ہیں:

” حدّثنی عمّای أنھم کانوا یکرُون الأرض علٰی عھد رسول الله صلی الله علیه وسلم بما ینبُت علی الأربعاء أو بشیء یستثنیه صاحب الأرض فنھانا النبی صلی الله علیه وسلم عن ذٰلک، فقلت لرافع: فکیف ھی بالدینار والدراھم؟ فقال رافع: لیس بھا بأسٌ بالدینار والدراھم، وکأنّ الذی نُھی عن ذٰلک ما لو نظر فیه ذوُو الفھم بالحلال والحرام لم یجیزوہ لما فیه من المخاطرة۔“ (بخاری :2346)

” میرے چچا بیان کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ زمین مزارعت پر دیتے تو یہ شرط کرلیتے کہ نہر کے متصل کی پیداوار ہماری ہوگی، یا کوئی اور استثنائی شرط کرلیتے (مثلاً: اتنا غلہ ہم پہلے وصول کریں گے، پھر بٹائی ہوگی)، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے حضرت رافع سے کہا: اگر زَرِ نقد(یعنی کرائے اور ٹھیکے) کے عوض زمین دی جائے اس کا کیا حکم ہوگا؟ رافع نے کہا: اس کا مضائقہ نہیں! لیث کہتے ہیں: مزارعت کی جس شکل کی ممانعت فرمائی گئی تھی، اگر حلال و حرام کے فہم رکھنے والے غور کریں تو کبھی اسے جائز نہیں کہہ سکتے ہیں، کیونکہ اس میں معاوضہ ملنے نہ ملنے کا اندیشہ (مخاطرہ) تھا۔“

”حدثنی حنظلة بن قیس الأنصاری قال: سألت رافع بن خدیج عن کراء الأرض بالذھب والورق، فقال: لا بأس به، انما کان الناس یوٴاجرون علٰی عھد رسول الله صلی الله علیه وسلم علی المأذیانات واقبال الجداول وأشیاء من الزرع فیھلک ھٰذا ویسلم ھٰذا ویسلم ھٰذا ویھلک ھٰذا فلم یکن للناس کراء الا ھٰذا فلذٰلک زجر عنه، وأما شیء معلوم مضمون فلا بأس به۔“ (مسلم:1547)

”حنظلہ بن قیس کہتے ہیں: میں نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ: سونے چاندی (زَرِ نقد) کے عوض زمین ٹھیکے پر دی جائے،ا س کا کیا حکم ہے؟ فرمایا: کوئی مضائقہ نہیں! دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ جو مزارعت کرتے تھے (اور جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا) اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ زمین دار، زمین کے ان قطعات کو جو نہر کے کناروں اور نالیوں کے سروں پر ہوتے تھے، اپنے لئے مخصوص کرلیتے تھے، اور پیداوار کا کچھ حصہ بھی طے کرلیتے، بسااوقات اس قطعے کی پیداوار ضائع ہوجاتی اور اس کی محفوظ رہتی، کبھی برعکس ہوجاتا۔ اس زمانے میں لوگوں کی مزارعت کا بس یہی ایک دستور تھا، اس بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سختی سے منع کیا، لیکن اگر کسی معلوم اور قابلِ ضمانت چیز کے بدلے میں زمین دی جائے تو اس کا مضائقہ نہیں۔“

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی بن باز رحمہ اللہ

جلددوم 

تبصرے