سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) نبی اکرمﷺ اور بعض صحابہ کرام کو مسجد میں دفن کرنے کی حکمت

  • 8316
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 932

سوال

(57) نبی اکرمﷺ اور بعض صحابہ کرام کو مسجد میں دفن کرنے کی حکمت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب یہ معلوم ہے کہ مردوں کو مسجد میں دفن کرنا جائز نہیں اور جس مسجد میں قبر ہو اس میں نماز پڑھنا جائز نہیں تو پھر رسول اللہﷺ بعض صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کی قبروں کومسجد نبویﷺ میں داخل کرنے کی کیا حکمت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

لعنة الله علي اليهود والنصاريٰ اتخذوا قبور انبيائهم مساجد

(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب ما یکرہ من اتخاذ المساجد علی القبور ح: 1330 صحیح مسلم کتاب المساجد باب النھی عن بناء المسجد ۔۔۔ح :529 وسنن نسائی رقم:704 واحمد فی المسند 5/604 وموطا امام مالک کتاب نصر الصلاۃ فی السفر رقم :85)

''یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو۔کہ انہوں نے اپنے نبیوں ؑ کی قبروں کو مسجدیں بنالیا۔

اسی طرح یہ بھی حدیث  حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہا  سے مروی  صحیح حدیث سے ثابت ہے۔

زكرتا لرسول الله  صلي الله عليه وسلم كنبة راتا ها بارض الحبشية وما فيها من الصور فقال صلي الله عليه وسلم اولئك اذا مات فيهم الرجل الصالح بنوا علي قبره مسجدا وصوروا فيه تلك الصور اولئك شرار الخلق عند الله

(صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب قبش القبور مشرکی ح:427۔437۔3878 ومسلم فی الصحیح رقم :528 والنسائی فی المجنی 2/41 واحمدفی المسند 6/ 51 ابو یعلیٰ فی المسند رقم:4629 وابن خزیمہ فی الصحیح رقم :790)

حضرت ام سلمہ اورحضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک گرجے کا ذکر کیا جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا اوراس میں بنی ہوئی تصویریں بھی دیکھی تھیں تو رسول اللہﷺنے فرمایا‘‘جب کوئی نیک آدمی فوت ہوتا تو یہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے تھے اوراس میں پھر تصویریں بھی بناتے ۔اللہ تعالیٰ  کے ہاں یہ لوگ ساری مخلوق سے بدترین ہیں۔

ان الله قد اتخذني خليلا كما اتخذ ابراهيم خليلا ولو كنت متخذا من امتي خليلا لاتخذت ابا بكر خليا الا وان من كان قبلكم كانو ا يتخذون قبور انبيائهم وصالحيهم مساجد الا فلا تتخذوا القبور مساجد فاني انهاكم عنه ذلك((صحیح مسلم )

حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ میں نے رسول اللہ ﷺکو وفات سے پانچ دن پہلے یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ  ‘‘میں اللہ تعالیٰ  کی جناب (بارگاہ)میں اس بات سے اظہار برات کرتا ہوں کہ تم میں سے میرا کوئی خلیل ہوکیونکہ اللہ تعالیٰ  نے مجھے اپنا خلیل بنالیا ہےجس طرح کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس نے اپنا خلیل بنا لیا تھا ۔اگرمیں نے امت میں سے کسی کو اپنا خلیل (بےحد گہرا دوست)بنانا ہوتا تو ابوبکر کو اپنا خلیل بناتا۔لوگو!آگاہ رہو کہ تم سے پہلے لوگ اپنے نبیوں اورولیوں کی قبروں پر مسجدیں بنالیتے تھے لہذا تم ایسا نہ کرنا،قبروں پر مسجدیں نہ بنانا میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں۔’’

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ  سے روایت ہے۔

انه نهي ان تجصص القبر وان يقعد عليه وان يبني عليه

(صحيح مسلم كتاب الجنائز ح:970)

''نبی کریمﷺ نے قبر کو چونا گچ(پختہ) کرنے اس پر بیٹھنے اور اس پرعمارت بنانے سے منع فرمایا ہے۔''

یہ احادیث ار اس مفہوم کی دیگر احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں۔ کہ قبروں پر مسجدیں بنانا حرام ہے۔اور ایسا کرنے والوں پرآپﷺ نے لعنت  فرمائی ہے۔اس طرح یہ احادیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہیں۔کہ قبروں پر عمارتیں بنانا قبے تعمیرکرنا اور انھیں چونا گچ کرنا حرام ہے۔ کیونکہ یہ شرک اور غیر اللہ کی عبادت کے اسباب میں سے ہے۔جیسے کہ قدیم وجدید دور کی تاریخ شاہد ہے۔لہذادنیا بھر کے مسلمانوں پر یہ واجب ہے۔کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے قبروں پر عمارت بنانے قبروں کو مسجد بنانے ان پر قبے تعمیر کرنے انہیں چونا گچ کرنے اور ان پر چراغ جلانے سے جو منع فرمایا ہے۔اس سے اور دیگر کاموں سے اجتناب کریں۔جن سے رسول اللہ ﷺ نے  منع فرمایا ہے۔اور اکثر لوگ جو کچھ کررہے ہیں۔ اس سے فریب خوردہ نہ ہوں۔ کیونکہ حق تو مومن کی متاع گمشدہ ہے۔ وہ جب بھی اسے پاتا ہے لے لیتا ہے۔اور حق کتاب وسنت کے دلائل سے معلوم ہوتا ہے۔ لوگوں کے آراء اور اعمال سے نہیں اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ اور آپﷺ کے صاحبین رضوان اللہ عنہم اجمعین  کی  تدفین مسجد میں عمل نہیں آئی تھی۔بلکہ ان مقدس ہستیوں کی تدفین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہا  کے حجرہ میں ہوئی  تھی۔

جب ولید بن عبد لملک کے عہد میں مسجد نبوی میں توسیع ہوئی۔ تو پہلی صدی ہجری کے آخر میں حجرہ کومسجد میں داخل کردیا گیا۔ لہذا ولید کا یہ عمل مسجد میں دفن کے حکم میں نہیں ہے۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور صاحبین رضوان اللہ عنہم اجمعین  کو ارض مسجد کی طرف منتقل نہیں کیاگیا۔بلکہ مسجد میں توسیع کے پیش نظر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہا  کے اس حجرے کو جس میں آپ مدفون تھے مسجد میں داخل کردیا گیا۔ لہذا یہ عمل کسی کےلئے قبروں پر عمارت بنانے کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا یا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ قبروں پر مسجدیں بنانا مسجدوں میں دفن کرنا جائز ہے۔کیونکہ یہ صحیح احادیث جو میں ن ابھی زکر کی ہیں۔ ان سے ان سب باتوں کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔اور رسول اللہ ﷺ کی صحیح سنت کے خلاف ولید کا عمل کسی کے لئے حجت نہیں ہے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی بن باز رحمہ اللہ

جلددوم 

تبصرے