سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(49) شعبدہ بازوں سے علاج کرانا

  • 8308
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2103

سوال

(49) شعبدہ بازوں سے علاج کرانا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کچھ لوگ بزعم خودشعبدہ بازی کے طبی طریقہ سے علاج کرتے ہیں۔جب میں ان میں سے کسی کے پاس جائوں تو وہ مجھے کہتا ہے کہ اپنا اور اپنی والد کا نام لکھو۔ اور پھر کل ہمارے پاس آئو۔اور پھر جب کوئی ان کے پاس جاتا ہے۔تو وہ کہتا ہے کہ  تجھے فلاں فلاں مصیبت آئی ہے۔اور اس کا علاج  یہ ہے۔ان میں سے کوئی یہ بھی کہتا ہے کہ میں کلام اللہ سے علاج کرتا ہوں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔؟اور ان کے پاس جانے کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جوشخص علاج میں ایسا طریقہ استعمال کرتا ہے۔تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جنوں سے خدمت لیتا اور علم غیب کا دعویٰ کرتا ہے۔لہذا ایسے شخص کے پا جانا ا س سے سوال کرنا اور اس سے علاج کروانا جائز نہیں ہے۔کیونکہ اس طرح کے لوگوں کے بارے میں نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:

من اتي عرافا  فساله عن شئي لم  تقبل له صلواة اربعين ليلة
(صحیح مسلم کتاب السلام باب تحریم الکھانۃ واتیان الکھان ح:2230۔واحمد فی المسند 4/68۔5/380)

''جس شخص نے کسی نجومی کے پاس جا کر کچھ پوچھا تو ا  س کی چالیس روز تک نماز قبول نہ ہوگی۔''

اور بھی بہت سی احادیث  سے  کاہنوں نجومیوں اور جادوگروں کے پاس جانے اور ان سے  سوال کرنے اور ان کی  تصدیق کرنے کی ممانعت آئی ہے۔چنانچہ آپ نے فرمایا:

من اتي كاهنا فصدقه بما يقول فقد كفر بما انزل علي محمد صلي الله عليه وسلم
(سنن ابی دائود کتاب الطب باب فی الکھان ح:3904)واخرجہ الترمذی فی الجامع رقم 135 وابن ماجۃ فی السنن رقم:639 واحمد فی المسند 2/408۔476)

''جو شخص کسی کاہن ونجومی کے پاس کوئی سوال پوچھنے کے لئے جائے اور پھر اس کے جواب کی تصدیق بھی کرے تو اس نے اس شریعت کا انکار کیا جسے محمد ﷺ پر نازل کیا گیا ہے۔''

جو شخص بھی کنکریاں مارنے یا گھونگھے اور سیپیاں استعمال کرنے یا زمین پر لکیریں کھینچنے یا مریض سے اس کے اس کی ماں یا اس کے رشتہ داروں کے نام پوچھ کر علم غیب کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ سب باتیں دلیل ہیں۔کہ وہ نجومی اور کاہنوں میں سے ہے۔جن سے سوال کرنے اور جن کی  تصدیق کرنے سے نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی بن باز رحمہ اللہ

جلددوم 

تبصرے