میرے خاندان میں تقرب کے حصول کےلئے اولیائے کرام کی قبروں پر بکریوں کے ذبح کرنے کا رواج ہے۔میں نے انھیں اس سے روکا لیکن اس سے ان کے عناد میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔میں نے ان سے کہا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ ٰ کی ذات گرامی کے ساتھ شرک ہے۔تو وہ کہنے لگے کہ ہم اللہ کی اسی طرح عبادت کرتے ہیں۔جس طرح اس کی عبادت کا حق ہے۔لیکن اگر ہم اولیاء کی زیارت کریں اور اپنی دعائوں میں اللہ تعالیٰ ٰ سے یوں کہیں۔کہ اپنے فلاں ولی کے طفیل ہمیں شفا عطا فرما یا ہماری فلاں مصیبت دور کردے۔تو بھلا اس میں گناہ کی کونسی بات ہے۔؟میں نے کہا ہمارادین واسطے کا دین نہیں ہے تو وہ کہنے لگے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑدو۔۔۔۔میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ ایسے لوگوں کے علاج کے لئے آپ کونساحل بہتر سمجھتے ہیں۔ان کے مقابلے میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟اس بدعت کا کس طرح مقابلہ کروں؟
کتاب وسنت کے دلائل سے یہ معلوم ہوچکا ہے۔کہ غیر اللہ خواہ اولیاء ہوں یا جن بت ہوں یا دیگر مخلوقات ان کے لئے ذبح کرکے تقرب حاصل کرنا اللہ تعالیٰ ٰ کے ساتھ شرک اور جاہلیت ومشرکین کے اعمال میں سے ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے۔
‘‘(اے پیغمبر!)آپ کہہ دیں کہ میری نماز اورمیری قربانی اورمیراجینااورمیرا مرنا،سب خالص اللہ ہی کے لئےہے جو سارے جہان کا مالک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اورمجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اورمیں سب سے پہلے فرمان بردارہوں۔’’
''نسک '' کامعنی ذبح کرنا ہے۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ ٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔کہ غیر اللہ کے لئے زبح کرنا بھی اسی طرح اللہ کے ساتھ شرک ہے۔جس طرح غیر اللہ کے لئے نماز پڑھنا شرک ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے۔
‘‘(اے محمد!ﷺ)ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی ہے تو اپنے پروردگار کے لئے نماز پڑھا کرو اور قربانی کیا کرو۔’’
اس سورہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ ٰ نے اپنے نبیﷺکو یہ حکم دیا ہے کہ وہ رب کے لئے نماز پڑھیں اور اسی کے لئے قربانی کریں کریں جب کہ اس کے برعکس اہل شرک غیراللہ کو سجدہ کرتے اور غیراللہ کے نام ذبح کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ٰ کا فرمان یہ ہے کہ:
‘‘اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔’’
اور فرمایا:
‘‘اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں اور یک سو ہوکر۔۔۔۔’’
اس مفہوم کی اور بھی بہت سی آیات ہیں۔ذبح کرنا عبادت ہے لہٰذا واجب ہے کہ یہ عبادت بھی صرف اللہ وحدہ کے لئے اخلاص کے ساتھ سرانجام دی جائے۔صحیح مسلم میں امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ:‘‘اللہ تعالیٰ ٰ اس شخص پر لعنت کرے جو غیراللہ کے لئے ذبح کرے۔’’
قائل کا جو یہ قول ہے کہ میں اللہ تعالیٰ ٰ سے بحق اولیاءیا بجاہاولیاءیا بحق نبی یا بجاہ نبی سوال کرتا ہوں تو یہ اگرچہ شرک نہیں لیکن جمہور اہل علم کے نزدیک یہ بدعت اور وسائل شرک میں سے ضرور ہے کیونکہ دعا ایک عبادت ہے اور اس کی کیفیت توقیفی امور میں سے ہے اور یہ ہمارے نبی کریمﷺسے ثابت نہیں جو مخلوق میں سے کسی ایک کے حق یا جاہ کے ساتھ وسیلہ کے جواز پر دلالت کناں ہوں۔لہٰذا مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ وسیلہ کی کوئی ایسی صورت اختیار کرے جس کی اللہ تعالیٰ ٰ نے اجازت نہ دی ہو،ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:
‘‘کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا۔’’
اور محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے۔
(صحيح بخاری کتاب الصلح باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود :2697) صحیح مسلم کتاب الاقضیہ باب نقض الاحکام الباطلۃ۔۔۔ح:1718)
‘‘جس نے ہمارے اس امر(دین)میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کی جو اس میں نہ ہو تو وہ مردود ہے’’
اس کی صحت متفق علیہ ہے اور مسلم کی ایک روایت میں ہے جسے امام بخاری نے صحیح میں تعلیقا مگر صیغۂ جزم کے ساتھ روایت کیا ہے کہ
(صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ باب نقض الاحکام الباطلۃ ۔۔۔ح :1718۔وصحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب رقم :20)
‘‘جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہماراامر نہیں ہے تو وہ مردود ہے’’
رسول اللہ ﷺ کے فرمان ''رد'' کے معنی یہ ہیں کہ اسے کام کرنے والے کے منہ پر دے مارا جائےگا۔اور ہرگز ہرگز قبول نہ ہوگا۔
لہٰذا اہل اسلام پر واجب ہے کہ صرف اسی کی پابندی کریں جس کا اللہ تعالیٰ ٰ نے حکم دیا ہے اور اس سے اجتناب کریں جسے بطور بدعت لوگوں نے ایجاد کیا ہو۔وسیلہ کی شرعی صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ٰ کے اسماءوصفات،اس کی توحید،اعمال صالحہ،اللہ اور اس کے رسولﷺکے ساتھ ایمان،اللہ اور اس کے رسولﷺکی محبت اور اس طرح کے دیگر نیکی وخیر کے اعمال کا وسیلہ اختیار کیا جائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب