سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(268) تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر مٹھائی تقسم کرنا

  • 8237
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1758

سوال

(268) تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر مٹھائی تقسم کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترم علمائے دین ! مندرجہ ذیل مسئلہ میں شریعت کا کیا حکم ہے؟کیا ر سول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تروایح قرآن ختم ہونے پر کوئی کھانے پینے کی چیزیا مٹھائی تقسیم کی تھی، یا کسی صحابی ، تابعی ، تبع تابعی ی اسلف صالحین میں سے کسی نے ایسا کیا تھا؟’ اگر یہ کام خیرالقرون میں ہونا ثابت ہے تو ہمیں کتاب کا نام‘ جلد ، صفحہ اور مطبع سے مطلع فرمائیں۔ اگر ثابت نہیں تو ہمیں بادلیل بتائیں کہ کیا یہ کام شرعا جائز ہے جب کہ وہ پابندی سے کیاجائے اور یہ کام کرنے والا کھانے پینے کی اس چیز کو یا اس مٹھائی کو تبرک سمجھتا ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہماری معلومات کی مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم  یاکسی صحابی ، تابعی یا امام سے یہ ثا بت نہیں کہ جب وہ تراویح میں قرآن مجید ختم کرتے تھے تو کھانے پینے کی چیز یا مٹھائی تقسیم کرتے تھے اور اس کام کوالتزام سے ادا کرتے تھے ۔ بلکہ یہ نئی ایجاد شدہ بدعت ہے ۔ کیونکہ یہ ایک عبادت کے بعد عمل میں لائی جاتی ہے اور  اس عبادت کی وجہ سے اور اس کے وقت کے مطابق کی جاتی ہے  اور دین میں ایجاد ہونے وای ہر بدعت گمراہی ہے کیونکہ ا س سے شریعت پر نامکمل ہونے پر الزام لگتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:

﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾

’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند فرمالیا۔‘‘ (المائدہ: ۵/۳)

حضرت عریاض بن ساریہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:’’ ہمیں رسول اللہ نے ایسا وعظ فرمایا کہ اس سے دلوں میں خوف پیدا ہوگیا اور آنکھیں اشک بار ہوگیں۔ ہم نے عرض کی : یارسول! یوں لگتاہے کہ یہ الوادع کہنے والے کی نصیحت ہے تو آپ ہمیں کوئی (خاص) وصیت فرمائیں۔ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

((أُوصِیکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَة وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِیًّا فَإِنَّہُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِی فَسَیَرَی اخْتِلَافًا کَثِیرًا فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِی وَسُنَّة الْخُلَفَائِ الْمَہْدِیِّینَ الرَّاشِدِینَ تَمَسَّکُوا بِہَا وَعَضُّوا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَة بِدْعَة وَکُلَّ بِدْعَة ضَلَالَة))

’’ میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور سن کر مان لینے کی وصیت کرتاہوں اگرچہ کوئی غلام ہی تمہارا امیر بن جائے۔ جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا بہت اختلاف دیکھے گا۔ لہٰذا میری سنت پر اور میرے بعد آنے والے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر قائم رہنا۔ انہیں مضبوطی سے تھامنا، (بلکہ) داڑھوں سے پکڑ کر رکھنا اور نئے نئے کاموں سے بچنا، کیونکہ ہرنیا کام بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے۔‘‘

حضرت امام مالک  رحمہ اللہ نے فرمایا:

((مَنْ أَحْدَثَ فِی الدَّینِ مَالَیْسَ مِنْہُ فَقَدْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا خَانَ الرَّسَالَة))

’’ جو شخص دین میں بدعت جاری کرتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فریضۂ  رسالت کی ادائیگی میں (نعوذباللہ) خیانت کی ہے ‘‘

کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾

’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند فرمالیا۔‘‘ (المائدہ: ۵/۳)

لہٰذا جوچیز اس وقت دین میں نہیں تھی وہ آج بھی دین بندسکتی۔ لیکن اگر کبھی کبھی یہ کام ہوجائے اور اسے لازمی نہ سمجھا جائے تو کوئی حرج نہیں۔

وَبِاللّٰہِ التَّوفَیقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَصَحبِهِ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ، رکن : عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان ، نائب صدر : عبدالرزاق عفیفی، صدر : عبدالعزیز بن باز

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 306

محدث فتویٰ

تبصرے