السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مذہب دروز کے متعلق شرعی حکم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رضی اللہ عنہما سے دروز اور نصیریوں کے متعلق شرعی حکم پوچھا گیا تو انہوں نے مندرجہ ذیل جواب دیا:
’’مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ درزی اور نصیری لوگ کافر ہیں، ان کا ذبیحہ کھانا یا ان کی عورتوں سے نکاح حلال نہیں۔ بلکہ ان سے جزیہ لے کر (اسلامی سلطنت میں) رہنے دینا بھی درست نہیں کیونکہ یہ مرتد ہیں۔ نہ وہ مسلمان ہیں، نہ یہودی اور نہ عیسائی۔ یہ لوگ پانچ نمازوں کی فرضیت کے قائل ہیں نہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کے، نہ حج کی فرضیت کے، نہ یہ اللہ کی حرام کردہ اشیاء مثلاً مراد اور شراب وغیرہ کی حرمت کے قائل ہیں۔ ان عقائد کے حامل ہوتے ہوئے یہ زبان سے لاَ اِلٰہَ أِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا اقرار بھی کریں، تب بھی کافر ہیں۔ ان عقائد ترک نہ کریں)۔ نصیری فرقہ کے لوگ ابو ثہیب محمد بن نصیر کے پیروکار ہیں۔ وہ ان غالی لوگوں میں سے تھا جو علی رضی اللہ عنہما کو اللہ مانتے ہیں۔ اور یہ شعر پڑھتے ہیں۔؎
أَشْھَدُ أَنْ لاَ أِلاَ أِلاَّ حَیْدَرَۃُ الْأَنْزَاعُ الْبَطِیْنُ
وَلاَ حِجَابَ عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ الصَّادِقُ الْأَمِیْنُ
وَلاَ طَرِیقَ أِلَیْہِ أَلاَّ سَلْمَانُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں سوائے گنجے سروالے، بڑے پیٹ والے حیدر کے اور اس پر کوئی پردہ نہیں سوائے سچے دیانت دار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے،اور اس تک پہنچنے کاکوئی راستہ نہیں سوائے مضبوط طاقت والے سلمان کے۔‘‘
درزی فرقہ ھشتگین درزی کا پیروکار ہے۔ یہ شخص مصر کے عبیدی قبیلہ کے ایک باطنی حکمران ’’الحاکم بامرہ‘‘ کا آزاد کردہ غلام تھا۔ اس نے اسے وادی تیم اللہ بن تعلبہ کے باشندوں کی طرف بھیجا، اس نے انہیں حکم دیا کہ رب ماننے کی دعوت دی۔ یہ لوگ اسے ’’الباری الغلام‘‘ کے نام سے یاد کرتے اور اس کی قسم کھاتے ہیں۔ یہ اسماعیلی فرقہ کی ایک شاخ ہیں، جن کا عقیدہ ہے کہ محمد بن اسماعیل نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کردیا ہے۔ یہ لوگ دوسرے غلو کرنے والے فرقوں سے زیادہ سخت کافر ہیں۔ دنیا کے ازلی ہونے کے قائل ہیں۔ قیامت کے منکر ہیں۔ اسلام کے فرائض ومحرمات کے منکر ہیں۔ ان کا تعلق باطنیہ کے فرقہ ’’قرامطہ‘‘ سے ہے جو یہودونصاریٰ اور مشرکین عرب سے بھی بڑھ کر کافر ہیں۔ زیادہ سے زیادہ انہیں فلسفی کہا جاسکتا ہے۔ جو ارسطو وغیرہ کے مذہب پر ہیں یا وہ مجوسی ہیں۔ ان کا عقیدہ فلسفیوں اور مجوسیوں کے عقائد کا ملغوبہ ہے۔ نفاق کے طور پر وہ خود کو شیعہ کہتے ہیں۔‘‘
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی نے روزے کے بعض فرقوں کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:
’’ان لوگوں کے کفر میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں، بلکہ جو کوئی ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی انہیں جیسا کافر ہے۔ ان کا مقام اہل کتاب والا ہے نہ مشرکین والا بلکہ یہ گمراہ کافر ہیں۔ لہٰذا ان کا کھانا پینا جائز نہیں، ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنایا جائے اور ان کے مال (غنیمت کے طور پر) لے لئے جائیں۔ یہ مرتد زندیق ہیں۔ ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی بلکہ جہاں ملیں انہیں قتل کیا جائے، ان سے پہرہ یا دربانی کی خدمت نہیں لی جاسکتی۔ ان کے علماء اور (بظاہر) صوفیہ کو بھی قتل کرنا واجب ہے تاکہ وہ دوسروں کو گمراہ نہ کریں۔ ان کے گھروں میں ان کے ساتھ سونا، ان کے ساتھ چلنا، جب ان میں سے کوئی مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ‘ سب حرام ہے۔ مسلمان حکمرانوں کے لئے جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے جو حد اور سزا مقرر کی ہے، اسے نافذ نہ کریں۔ واللہ المستعان وعلیہ التکلان
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب