سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(220) نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبان کا اس سے کوئی تعلق نہیں

  • 820
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1937

سوال

(220) نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبان کا اس سے کوئی تعلق نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِکُلِّ امْرِءٍ مَا نَوَی» (صحيح البخاري، بدء الوحی، باب کيف کان بدا الوحی الی رسول الله، ح:۱ وصحيح مسلم، الامارة، باب انما الاعمال بالنية، ح: ۱۹۰۷)

’’تمام اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے، ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے، جو اس نے نیت کی۔‘‘

لیکن نیت کا مقام دل ہے، یہ اس بات کی محتاج نہیں کہ اسے زبان سے ادا کیا جائے، مثلاً: آپ جب اٹھ کر وضو کرنے لگیں تو یہ نیت ہے۔ عقل مند اور ایسا انسان جسے کسی کام پر مجبور نہ کر دیا گیا ہو، وہ جو کام بھی کرے گا وہ نیت ہی سے کرے گا، اس لیے بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم پر کسی کام کو بلا نیت کرنے کی ذمہ داری عائد فرما دیتا تو یہ تکلیف مالایطاق ہوتی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  سے یہ ثابت نہیں کہ وہ نیت الفاظ سے ادا کرتے ہوں۔ جو لوگ الفاظ کے ساتھ نیت ادا کرتے ہیں وہ ازروئے جہالت یا ان اہل علم کی تقلید کے طور پر ایسا کرتے ہیں جنہوں نے یہ کہا ہے کہ الفاظ کے ساتھ بھی نیت کی جائے تاکہ دل اور زبان میں ہم آہنگی ہو جائے۔ لیکن ہم کہیں گے کہ ان کی یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر یہ حکم شریعت ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے قول یا فعل سے اسے امت کے سامنے بیان فرما دیتے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ264

محدث فتویٰ

تبصرے