سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(219) غیر قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم

  • 819
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1802

سوال

(219) غیر قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب جماعت غیر قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے، تو اس نماز کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اس مسئلہ کی دو حالتیں ہو سکتی ہیں: (۱)وہ ایسی جگہ ہوں، جہاں انہیں قبلہ کا علم ہی نہ ہو سکا ہو، مثلاً: وہ سفر میں ہوں، آسمان ابر آلود ہو، انہیں جہت قبلہ معلوم نہ ہو سکی ہو اور انہوں نے مقدور بھر کوشش سے قبلہ کے رخ کا تعین کر کے نماز پڑھ لی ہو اور پھر انہیں معلوم ہوا ہو کہ انہوں نے غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے تو اس صورت میں ان کے ذمہ کچھ واجب نہ ہوگا کیونکہ مقدور بھر اللہ تعالیٰ سے انہوں نے خوف وخشیت کا پہلو اختیار کرلیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم...﴿١٦﴾... سورة التغابن

’’سو جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو۔‘‘

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«وَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ» (صحيح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، باب الاقتداء بسنن رسول الله، ح:۷۲۸۸ وصحيح مسلم، الحج، باب فرض الحج مرة فی العمر، ح: ۱۳۳۷ (۴۱۲)۔

’’اور جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو تم مقدور بھر اس کی اطاعت بجا لاؤ۔‘‘

خاص اسی مسئلہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿وَلِلَّهِ المَشرِقُ وَالمَغرِبُ فَأَينَما تُوَلّوا فَثَمَّ وَجهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وسِعٌ عَليمٌ ﴿١١٥﴾... سورة البقرة

’’اور مشرق اور مغرب اللہ ہی کے ہیں سو جدھر تم رخ کرو ادھر اللہ کی ذات ہے۔ بے شک اللہ صاحب وسعت اور باخبر ہے۔‘‘

(۲)  یاوہ ایسی جگہ ہوں جہاں ان کے لیے قبلہ کے بارے میں سوال کرنا ممکن ہو مگر وہ کوتاہی وسستی کی وجہ سے کسی سے نہ پوچھیں تو اس حالت میں ان کے لیے اس نماز کی قضا لازم ہوگی، جسے انہوں نے عیر قبلہ رخ ادا کیا ہے، خواہ انہیں اپنی غلطی کا علم نماز ختم کرنے سے پہلے ہو یا بعد میں کیونکہ اس حال میں وہ خود خطا کار ہیں۔ قبلہ کے بارے میں ان سے خطا ہوئی۔ گو انہوں نے جان بوجھ کر قبلہ سے انحراف نہیں کیا لیکن انہوں نے قبلہ کے بارے میں پوچھنے میں سستی وکوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے، تاہم اگر قبلہ کی جہت سے معمولی سا انحراف ہو جائے تو یہ ان کے حق میں نقصان دہ شمار نہیں ہوگا، مثلاً: یہ کہ وہ تھوڑا سا دائیں یا بائیں طرف جھک جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اہل مدینہ سے فرمایا تھا:

«مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ» (جامع الترمذي، الصلاة، باب ماجاء: ان ما بين المشرق والمغرب قبلة: ح: ۳۴۲ وسنن ابن ماجه، الصلاة، باب القبلة، ح: ۱۰۱۱)

’’مشرق ومغرب کے درمیان قبلہ ہے۔‘‘

جو لوگ کعبہ سے شمال کی طرف ہوں گے، ان سے ہم یہ کہیں گے کہ مشرق ومغرب کے درمیان قبلہ ہے اور جو جنوب کی طرف ہوں گے، ان کے لیے بھی یہی حکم ہے لیکن جو مشرق یا مغرب کی طرف ہوں گے، ان سے ہم یہ کہیں گے کہ شمال و جنوب کے درمیان قبلہ ہے، لہٰذا معمولی سے انحراف سے کوئی اثر اور نقصان نہیں ہوتا۔

یہاں ایک مسئلہ کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ جو شخص مسجد حرام میں ہو اس کے لیے عین کعبہ کی طرف منہ کرنا واجب ہے، محض جہت کعبہ کی طرف نہیں کیونکہ جیسے ہی وہ عین کعبہ سے منحرف ہو گا ویسے ہی وہ قبلہ رخ سے بھی منحرف ہوجائے گا۔ میں نے مسجد حرام میں بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ عین کعبہ کی طرف منہ نہیں کرتے، مثلاً: آپ دیکھیں گے کہ جب صف مستطیل اور طویل ہو تو آپ کو یقینی طور پر معلوم ہو جائے گا کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کا عین کعبہ کی طرف رخ نہیں ہوتا ۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے، مسلمانوں کے لیے اس سے بچنا اور اس کی تلافی کرنا واجب ہے کیونکہ اس حالت میں جب وہ نماز اداکریں گے تو غیر قبلہ کی طرف نماز ادا کریں گے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ263

محدث فتویٰ

تبصرے