السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
چند ایک نیک افراد ایک بڑی آباد بستی میں رہتے ہیں، وہاں ایک بڑی جامع مسجد ہے باجماعت نماز ادا کی جاتی ہے۔ بستی میں صرف یہی ایک مسجد ہے۔ وہ مسجد اتنی بڑی ہے کہ نماز پنجگانہ میں شریک ہونے والے نمازی اس میں آسانی سے نماز پڑھ لیتے ہیں اور پھر بھی خالی جگہ بچ جاتی ہے۔ واضح رہے کہ بستی کے تمام افراد نماز باجماعت کے پابند نہیں، چند نیک لوگ ہیں جو پابندی سے نماز باجماعت ادا کرتے ہیں… ایک چھوٹی سی جماعت بستی والوں سے الگ ہوگئی ہے، وہ بدعتوں اور خلاف سنت اعمال کی تردید کرتے ہیں اور بستی والوں کے اس رویہ کو بھی برا سمجھتے ہیں کہ وہ شعائر دینیہ کے قیام میں کوتاہی کرتے ہیں اور انہیں کامل طریقہ سے ادا نہیں کرتے۔ واضح رہے کہ بستی والے فرقہ تیجانیہ سے تعلق رکھتے ہیں… چنانچہ اس چھوٹی جماعت نے فیصلہ کیا کہ وہ بسی کے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے کیونکہ وہ امامت کا اہل نہیں اور غلط قسم کے تیجانی عقیدہ میں ایسی باتیں کہتاہے جن میں غلو اور شرک پایا جاتاہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان افراد نے ایک نئی مسجد بنالی جو پہلی مسجد سے زیدہ دور نہیں ہے، وہاں وہ توحید کا درس دینے لگے اور اتباع سنت کی تعلیم دینے لگے اور بدعات وخرافات سے روکنے لگے۔ چنانشہ کئی نوجوان اس کی طرف مائل ہوگئے۔ جنہیں ان کے گھر والوں نے بہت تنگ کیا۔ بستی والو ں کا یہ فیصلہ ہے کہ نئی جماعت دین سے کوئی تعلق نہیں رکتھی اور نئی مسجد کی حیثیت مسجد ضرار کی سی ہے… حالانکہ اس جماعت میں ایک عالم بھی موجود ہے جس نے مدرسہ زیتونہ سے تعلیم حاصل کی ہے اور فقہ مالکی کاعالم ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی نئی تعمیر کی جانے والی مسجد کا کیا حکم ہے؟ کیا اس کے بارے میں ان کی یہ بات صحیح ہے کہ یہ مسجد ضرار ہے؟ طریقہ تیجانیہ کی تردید کرنے والوں کا کیا حکم ہے؟ او ران کا ایمان کیسا ہے؟… اگر کوئی طالب علم اس بستی میں اصلاح کی خواہش رکھتا ہو تو کیا اس کے لئے جائز ہے کہ ان گمراہ تیجانیوں کی مسجد میں جا کر ان کی اصلاح کی کوشش کرے؟ کیا وہ دوسری متبع حق جماعت سے الگ ہوجائے کیونکہ انہوں نے نئی مسجد تعمیر کر کے فتنہ کھڑا کر دیا ہے یا وہ اہل حق کی چھوٹی جماعت کے ساتھ رہے اور دوسروں سے قطع تعلق کرلے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(۱) اگر صورت حال واقعی اسی طرح ہے جس طرح سوالوں میں ذکر کی گئی ہے کہ گاؤں کی واحد بڑی مسجد پر تیجانیوں کا قبضہ ہے اور وہ اس میں علی الاعلان بدعات وخرافات پر عمل پیرا ہیں اور اہل حق نے ان کی تردید کی‘ انہوں نے بات نہیں مانی‘ اس لئے یہ لوگ الگ ہوگئے اور نماز قائم کرنے کے لئے مسجد بنالی… تو اس صورت میں ان کی مسجد‘ مسجد ضرار نہیں ہے۔
(۲) طریقۂ تیجانیہ والوں کی بدعات وخرافات کی تردید کرنا اہل سنت والجماعت کے علماء کافرض ہے، طریقہ تیجانیہ والوں کا مقام اور ان کی ایجاد کردہ بدعات وخرافات کی وجہ سے ان کا کیا حکم ہے؟ اس موضوع پر مجلس افتاء نے ایک مستقل مقالہ تحریر کیا ہے [1] وہ ملاحظہ کریں۔
(۳) جس کے پاس علم ہو اور اسے امید ہو کہ اس کی نصیحت قبول کی جائے گی وہ ان سے میل جول رکھ سکتا ہے اور انہیں نصیحت کرسکتا ہے۔ شاید وہ اس کی نصیحت قبول کر کے اپنی بدعتوں سے باز آجائیں یا بدعتیں کم کردیں۔ اگر یہ امید نہ ہو تو پھر ان سے میل جول نہیں رکھنا چاہئے۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ
اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن بازفتویٰ (۳۰۸۷)
[1] دیکھئے اسی باب میں فتویٰ نمبر: ۵۵۵۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب