سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(218) عین قبلہ سے تھوڑا ہٹ جانے سے نماز باطل نہیں ہوتی

  • 818
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1620

سوال

(218) عین قبلہ سے تھوڑا ہٹ جانے سے نماز باطل نہیں ہوتی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب نمازی کو معلوم ہو کہ وہ قبلہ سے تھوڑا سا ہٹ گیا ہے تو کیا وہ نماز دوبارہ پڑھے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

قبلہ سے تھوڑا سا ہٹ جانا نقصان دہ نہیں ہے اور یہ حکم اس کے لیے ہے جو مسجد حرام میں نہ ہو کیونکہ مسجد حرام میں تو نمازی کا قبلہ یعنی عین کعبہ سامنے موجود ہوتا ہے۔ اسی لیے علماء نے فرمایا ہے کہ جس کے لیے کعبہ کا مشاہدہ ممکن ہو، اگر وہ عین کعبہ کے سامنے نہیں ہے تو اسے نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی کیونکہ اس کی نماز صحیح نہیں ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَوَلِّ وَجهَكَ شَطرَ المَسجِدِ الحَرامِ وَحَيثُ ما كُنتُم فَوَلّوا وُجوهَكُم شَطرَهُ...﴿١٤٤﴾... سورة البقرة

’’تو اپنا چہرہ مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ) کی طرف پھیر لے اور تم لوگ جہاں ہوا کرو (نماز پڑھنے کے وقت) اسی کی طرف چہرہ کر لیا کرو۔‘‘

اگر انسان کعبہ سے دور ہو اور اس کے لیے کعبہ کا مشاہدہ ممکن نہ ہو، خواہ وہ مکہ ہی میں ہو تو اس کے لیے قبلہ کی جہت چہرہ کرنا واجب ہے اور تھوڑا سا قبلہ سے ہٹ جانا اس کے لیے نقصان دہ نہیں ۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اہل مدینہ سے فرمایا تھا:

«مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ» (جامع الترمذي، باب ماجاء: ان ما بين المشرق والمغرب قبلة، ح: ۳۴۲ وسنن ابن ماجه، الصلاة، باب القبلة ح: ۱۰۱۱۔ والحاکم وصححه ووافقه الذهبی(المستدرک)۲۲۵/۱)

’’مشرق ومغرب کے درمیان قبلہ ہے۔‘‘

اس لیے کہ اہل مدینہ جنوب کی طرف منہ کرتے ہیں، تو مشرق ومغرب کے درمیان کی پوری سمت ان کے حق میں قبلہ ہے (یعنی رخ تھوڑا سا مشرق یا مغرب کی طرف ہٹ جائے تو فرق نہیں پڑتا، اس لیے کہ مقصود جہت قبلہ ہے نہ کہ عین قبلہ) اسی طرح جو لوگ مغرب (یا مشرق) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں، ان کے لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جنوب وشمال کے مابین والی سمت ان کا قبلہ ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ263

محدث فتویٰ

تبصرے