السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
احمد بن محمد تیجانی :اور طریقۂ تیجانیہ کا ماخد علم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نام احمد محمد بنن مختار بن احمد بن محمد تیجانی۔ ۱۱۵۰ھ میں ’’عین ماضی‘‘ نام کے گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کا دادا محمد ترک وطن کرکے اس گاؤں میں آیا تھا اور یہیں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ یہاں اس نے قبیلہ ’’تجانی‘‘ یا ’’تجانا‘‘ کی ایک خاتون سے شادی کی جو اس کی اولاد کا ننھیال بنا اور وہ لوگ اسی قبیلہ کی طرف منسوب ہوئے۔ ابو العباس نے اسی بستی میں پرورش پائی اور قرآن مجید حفظ کیا۔ اس کے بعد طلب علم کے لے مختلف شہروں کا سفر کیا۔ اس سفر میں وہ مختلف صوفی مشائخ سے متاثر ہوا اور متعدد افراد سے بیعت کی۔ گھومتے پھرتے آخر کار وہ ’’ابو صیفون‘‘ میں پہنچا۔ وہاں سے اس نے یہ دعویٰ کیا کہ اسے ’’فتح‘‘ حاصل ہوگئی ہے اور اس نے خواب میں نہیں بلکہ عین حالت بیداری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تمام انسانوں کی تربیت کی اجازت دی ہے اور اسے براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے طریقہ تصوف حاصل ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ تمام صوفیانہ طریقوں اور سلسلوں سے قطع تعلق کرلے جو اسے مختلف مشائخ تصوف سے حاصل ہوئے ہیں اور اصرف اسی طریقہ پر اکتفا کرے جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود براہ راست زبانی طور پر اسے سکھایا ہے اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے کہ وہ وظیفہ مقرر کیا ہے جو اس وہ اپنے مریدوں کو سکھاتا ہے۔ یہ وظیفہ استغفار اور درود شریف پر مشتمل ہے۔ یہ چیز اسے ۱۱۹۶ھ میں حاصل ہوئی اور اس کی تکمیل صدی کے ختم ہونے پر سورت اخلاص کا وظیفہ حاص ہونے پر ہوئی۔ اس لئے اسے سلسلہ احمدیہ اور محمدیہ بھی کہا جاتا ہے اور سلسلہ تیجانیہ بھی‘ جو اس قبیلہ کی طرف نسبت ہے جس میں اس کے دادا محمد نے شادی کی تھی اور یہ لوگ اس کی طرف منسوب ہوئے۔
شہرت حاصل ہونے کے بعد احمد تیجانی نے دعویٰ کیا کہ وہ سید ہے اور اس کا سلسلہ نصب حضرت حسن بن علی بن ابن گواہی کی ضرورت محسوس کی۔ بلکہ اس نے دعویٰ کیا کہ بیداری میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ اس وقت اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے نسب کے متعلق سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو سچ مچ میرا بیٹا ہے۔‘‘ نبی علیہ السلام نے یہ الفاظ تین بار ارشاد فرمائے۔ پھر فرمایا: ’’حسن رضی اللہ عنہما تک تیرا نسب صحیح ہے، مذکورہ بالا معلومات علی حراز کی کتاب ’’جواھر المعانی‘‘ کے پہلے باب اور عمر بن سعید فوتی کی ’’کتاب الرماح‘‘ کی آٹھائیسویں فصل میں مذکور بیانات کا خلاصہ ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ خلفائے راشدین یا دیگر صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی میں یہ ثابت نہیں… حالانکہ وہ لوگ انبیاء کرام رضی اللہ عنہم کے بعد ا للہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں بلند ترین درجہ کے حامل تھے… کہ ان میں سے کسی نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بیداری میں ہوئی ہے اور یہ ایک بد یہی حقیقت ہے کہ شریعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں مکمل ہوگئی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس امت کا دین مکمل کر کے اپنی نعمت کی تکمیل فرمادی تھی۔ ارشاد ربانی تعالیٰ ہے:
﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدۃ۵؍۳)
’’آج میں نے تمہارے لئے دین مکمل فرمادیا ہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند فرمالیا۔‘‘
لہٰذا احمد تیجانی کا یہ دعویٰ کہ اس نے بیداری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیداری میں براہ راست طریقہ تیجانیہ حاصل کیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ وظیفہ مقرر کیا ہے۔ جس کے ذریعہ وہ اللہ کا ذکر کرے اور درود پڑھے۔ یقیناً اس کا یہ دعویٰ واضح گمراہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک بہتان ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب