سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(217) مسجد حرام میں جوتوں سمیت نہیں چلنا چاہیے

  • 817
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1070

سوال

(217) مسجد حرام میں جوتوں سمیت نہیں چلنا چاہیے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسجد حرام کی زمین پر جوتوں سمیت چلنے والوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

مسجد حرام کی زمین پر جوتوں سمیت نہیں چلنا چاہیے کیونکہ اس سے ان عوام کے لیے دروازہ کھلتا ہے جو مسجد کا احترام نہیں کرتے اور پانی کے ساتھ گیلے جوتوں سمیت مسجد میں آجاتے ہیں، ممکن ہے کہ ان کے جوتے نجاستوں سے آلودہ ہوں اور وہ اپنے جوتوں سمیت مسجد میں داخل ہو کر اسے بھی آلودہ کر دیں۔ شریعت کا یہ اصول ہے کہ اگر ایک چیز کے ارتکاب سے خرابی کا کوئی پہلو نکلتا ہو تو واجب ہے کہ اس خرابی کی وجہ سے اسے ترک کر دیا جائے۔ اہل علم کے ہاں یہ قاعدہ معروف ہے: ’’جب مصالح اور مفاسد میں اختلاف ہو اور دونوں کا پہلو برابر ہو یا مفاسد کا پہلو راجح ہو تو اس صورت میں مفسدہ کو دور کر دینا مصالح اختیار کرنے کی نسبت زیادہ بہتر ہوگا۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا تھا کہ کعبہ شریف کی عمارت کو منہدم کر کے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر عمارت کو از سر نو تعمیر فرمائیں مگر لوگ کفر کو چھوڑ کر نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے، اس وجہ سے فساد کے اندیشہ کے پیش نظر آپ نے اپنے اس ارادہ کو ترک فرما دیا۔ آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:

((لَوْلَا أَنَّ قَوْمَکِ حَدِیثواُ عَہْدٍ بِکفر لھدمت الکعبة وبنیتھا علی قواعد ابراھیمٍِ وَجَعَلْتُ لَہاُ بَابَیْن بابا یدخل منہ الناس وبابا یخرجون منه)) (صحیح البخاري، الحج، باب فضل مکةوبنیانہا، ح: ۱۵۸۶ وصحیح مسلم، الحج، باب نقض الکعبة وبنائہا، ح: ۱۳۳۳۔)

’’اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تمہاری قوم نے کفر کو نیا نیا چھوڑا ہے تو میں کعبہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنائی ہوئی بنیادوں پر استوار کردیتا اور اس کے دو دروازے بنا دیتا، ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے سے نکلتے۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ262

محدث فتویٰ

تبصرے