السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شیخ عبدالقادر جیلانی یا ابو الحسن شاذلی وغیرہ بزرگوں کی طرف جو سلسلے منسوب ہیں، کیا ان میں داخل ہونے اور ان کی طرف نسبت کرنے میں کوئی حرج ہے؟ کیا یہ کام سنت ہے یا بدعت؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام ابو داؤد اور دیگر محدثین نےحضرت عریاض بن ساریہ رضی اللہ عنہما سے حدیث بیان کی ہے کہ ایک دن جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی پھر ہماری طرف رخ اور کیا اور ایک انتہائی پر تاثیر وعظ ارشاد فرمایا کہ آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور دل دہل گئے۔ ایک صاحب نے عرض کی ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو ایسا وعظ ہے جیسے کوئی الوداع کہنے والا نصیحت کیا کرتا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے کیا عہد وپیمان لینا چاہتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أُوْصیکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَة وَأِنْ کَانَ عَبْداً حَبَشَیّاً، مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِی فَسَیَرَی اِخْتِلاَفاً کَثِیْراً فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّة الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِینَ الْمُھْدِیِّینَ تَمَسَّکُوا بِھَا وَعَضُّوا عَلَیْھَا بِاالنَّوَاجِدِ وَأِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُورِ فَأِنَّ کُلَّ مُحْدَثَة بِدْعَة وَکُلَّ بِدْعَة ضَلاَلَة)
’’میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اورسن کر حکم ماننے کی وصیت کرتا ہوں، اگرچہ ایک حبشی غلام تمہارا امیر بن جائے۔ کیونکہ جو کوئی میرے بعد زندہ رہے گا بڑے اختلاف دیکھے گا۔ تو تم میرے طریقے پر اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے پر کاربند رہنا۔ اسے مضبوطی سے پکڑے رکھنا، بلکہ داڑھوں سے پکڑکر رکھنا اور نئے نئے کاموں سے بچنا۔ کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی ہے کہ آپ کی امت میں بہت سے اختلاف ہوں گے اور لوگ الگ الگ راہوں پر چل نکلیں گے اور بہت سی بدعتیں ایجاد ہوجائیں گی‘ چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور انہیں اختلاف‘ تفرقہ اور بدعتوں سے ڈرایا کیونکہ یہ گمراہی اور ہلاکت کا باعث ہیں اور جو شخص ان راہوں پر چلتا ہے وہ راہ راست سے دور ہوجاتاہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو وہی نصیحت کی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں کی ہے:
﴿وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا﴾ (آل عمران۳؍۱۰۳)
’’تم سب ملک کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور الگ الگ نہ ہوجاؤ۔‘‘
اور فرمان ہے:
﴿وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن﴾ (الانعام۶؍۱۵۳)
’’اور تحقیق یہ میرا راستہ ہے جو سیدھا ہے تو اس پر چلو اور دوسری راہوں کے پیچھے نہ لگنا، ورنہ وہ تمہیں اس کے راستے سے جدا کردیں گی‘ اس نے تمہیں یہ نصیحت کی ہے کہ تاکہ تم بچ جاؤ۔‘‘
ہم بھی آپ کو وہی نصیحت کرتے ہیں جو اللہ تعا لیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے اور نصیحت کرتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کے طریقہ پر قائم رہیں اور ان تمام چیزوں سے بچیں جو اہل طریقت نے ایجاد کر لی ہیں، یعنی ملاوٹی تصوف‘ خود ساختہ وظیفے، غیر شرعی اذِکار اور دعائیں جن میں صاف طور پر شرک پایاجاتاہے یا وہ شرک کا ذریعہ ہیں مثلاً غیر اللہ سے فریاد کرنا،اسم مفرد کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنا، ایسے الفاظ کے ساتھ ذکر کرنا جو دراصل اللہ تعالیٰ کے نام نہیں مثلاً ’’آہ‘‘ اور بزرگوں کے وسیلہ سے دعا کرنا، ان کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ دلوں کے راز جان لیتے ہیں اور مل کر ایک آواز سے اللہ کا ذکر اور شعر پڑھتے ہوئے تھرکنا اور اس طرح کی دیگر حرکات جن کا اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں کوئی ذکر نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب