سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(172) ان لوگوں کے پاس کوئی شرعی دلیل نہیں

  • 8147
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1648

سوال

(172) ان لوگوں کے پاس کوئی شرعی دلیل نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صوفیہ جو ناچتے، گاتے اور دائیں بائیں جھومتے ہیں اور اسے ذکر کہتے ہیں۔ کیا یہ واقعی ذکر ہے؟ کیا یہ حلال ہے یا حرام؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے بہترین کلام اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور سب سے بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کا طریقہ ہے اور بدترین کام وہ ہیں جو (شریعت میں) نئے نکالے جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لئے دین وشریعت کو مکمل کردیا ہے۔ خواہ اس کا تعلق قولی پہلو سے ہو یا عملی پہلو سے یا عقیدہ کے پہلو سے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدۃ۔۳)

’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کردی ہے اور اسلام کو بطور دین تمہارے لئے پسند فرمایا ہے۔‘‘

اس کی وضاحت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے ارشادات سے بھی فرمائی ہے اور اپنے افعال سے بھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی موجودگی میں جو کام کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس پر نکیر نہیں فرمائی‘ یہ بھی شرعی مسئلہ کی وضاحت شمار ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے یہ تمام ارشادات، افعال اور سکوت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بعد والوں تک پہنچا دئیے۔ لہٰذا دین اسلام اپنے اصول وقواعد کے لحاظ سے بھی کامل ہے اور وضاحت وروایت کے لحاظ سے بھی مکمل ہے۔

ذکر عبادت کی ایک قسم ہے اور عبادت کا دارومدار اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وضاحت وتائید پر ہے۔ اس لئے جو شخص کسی کام کو عبادت سمجھ کر کرتا ہے، یا کسی عبادت کے لے (اپنی رائے سے) کسی وقت یا کیفیت کا تعین کرتا ہے، اس سے دلیل کامطالبہ کیا جائے گا۔ سوال میں جن کاموں کا ذکر ہے ہمارے علم میں ان کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں جس پر اعتماد کیا جاسکے اور رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ اردشاد صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ:

(مَنْ أَْحْدَثَ فِي أَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَرَدٌّ)

جس نے ہمارے دین میں وہ کام ایجاد کا جو اس میں سے نہیں، تو وہ ناقابل قبول ہے۔‘‘

لہٰذا سوال میں جو کیفیت ذکر کی گئی ہے وہ بھی رد کرنے کے قابل ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 176

محدث فتویٰ

تبصرے