سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(212) کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی سزا

  • 812
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2101

سوال

(212) کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی سزا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی شخص تکبر کے ساتھ کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکائے تو اس کی سزا کیا ہے؟ اگر مقصود تکبر نہ ہو تو پھر سزا کیا ہے؟ اور جو شخص اس سلسلہ میں حدیث حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ  سے استدلال کرے تو اسے کیا جواب دیا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جو شخص از راہ تکبر کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکائے تو اس کی سزا یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھے گا، نہ کلام کرے گا اور نہ اسے پاک کرے گا اور اس کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ اور اگر مقصود تکبر نہ ہو تو اس کی سزا یہ ہوگی کہ ٹخنوں سے نیچے کے حصے کو دوزخ میں آگ کا عذاب دیا جائے گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«ثَـلَاثَةٌ لَا يُکَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَکِّيْهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: الْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَه بِالْحَلْفِ الْکَاذِبِ» (صحيح مسلم، کتاب الايمان، باب بيان غلظ تحريم اسبال الازار… ح:۱۰۶)

’’تین شخص ایسے ہیں، جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ کلام فرمائے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا: کپڑے کو نیچے لٹکانے والا، احسان جتلانے والا اور اپنے سودے کو جھوٹی قسم کاسہارالے کر بیچنے والا۔‘‘

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بھی فرمایا ہے:

«مَنْ جَرَّ ثَوْبَه خُيَلَآئِ لَمْ يَنْظُرِ اللّٰهُ اِلَيْهِ  يَوْمَ الْقِيَامَةِ» (صحيح البخاري، اللباس، باب من جر ازاره من غير خيلاء ح: ۵۷۸۴ وصحيح مسلم، اللباس، باب تحريم جر الثوب خيلاء، ح:۲۰۸۵ (۴۴))

’’جو شخص از راہ تکبر کپڑے کو گھسیٹے ہوئے چلے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف  نظر اٹھاکردیکھے گا بھی نہیں۔‘‘

یہ وعید اس شخص کے بارے میں ہے، جو اپنے کپڑے کو تکبر کے ساتھ گھسیٹے اور جس شخص کا مقصد تکبر

نہ ہو تو صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

«مَا أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَيْنِ مِنَ الْإِزَارِ فَفِی النَّارِ» (صحيح البخاري ، اللباس، باب ما اسفل من الکعبين فهو فی النار، ح: ۵۷۸۷)

’’تہبند کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو، وہ جہنم میں ہوگا۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے تکبر کے ساتھ مقید نہیں فرمایا اور نہ مذکورہ بالا حدیث کے پیش نظر اسے مقید کرنا صحیح ہے کیونکہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

«إِزَارَةُ الْمُؤمنِ إِلَی نِصْفِ السَّاقِ وَلَا حَرَجَ ـأَوقال:ْ لَا جُنَاح عليهَ ـ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْکَعْبَيْن وِ مَا کَانَ أَسْفَلَ مِنْ ذلکِ فَهُوَ فِی النَّاروِ مَنْ جَرَّ إِزَارَهُ بَطَرًا لَمْ يَنْظُرِ اللّٰهُ إِلَيْه يوم القيامهِ» (سنن ابی داؤد، اللباس، باب فی قدر موضع الازار ح: ۴۰۹۳ وسنن ابن ماجه، اللباس، باب موضع الازار اين هو، ح: ۳۵۷۳ ومسند احمد: ۳/ ۵)

’’مسلمان کا تہبند نصف پنڈلی تک ہے، نصف پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان جو ہو اس میں کوئی حرج یا گناہ نہیں اور جو ٹخنوں سے نیچے ہو، وہ آگ میں ہوگا ( مرادجہنم کا ایندھن بنے گا)اور جس نے تکبر کے ساتھ اپنے تہبند کو گھسیٹا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر اٹھاکر دیکھے گا بھی نہیں۔‘‘

دونوں عمل مختلف ہیں، اس لیے ان کی سزائیں بھی مختلف ہیں اور جب حکم اور سبب مختلف ہوں تو مطلق کو مقید پر محمول کرنا ممنوع ہوتا ہے کیونکہ اس سے تناقض لازم آتا ہے۔ جو شخص حدیث حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ  کو ہمارے خلاف بطور دلیل پیش کرے تو ہم کہیں گے کہ یہ حدیث تمہارے لیے دلیل نہیں بن سکتی اور اس کے درج ذیل وجوہ ہیں: (۱)حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  نے کہا تھا:

«إِنَّ أَحَدَ شِقَّیْ ثَوْبِی يَسْتَرْخِی إِلَّا أَنْ أَتَعَاهَدَ ذَلِکَ مِنْهُ» (صحيح البخاري، اللباس، باب من جر ازاره من غير خيلاء، ح:۵۷۸۴)

’’میرے تہبند کی ایک جانب ڈھیلی ہو جاتی ہے لیکن میں اس کا خیال رکھتا ہوں۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  اپنے اختیار سے کپڑے کو نیچے نہیں لٹکاتے تھے بلکہ وہ خود بخود ڈھیلا ہو جاتا تھا اور آپ اسے اوپر اٹھانے کی کوشش کرتے رہتے تھے لیکن جو لوگ کپڑوں کو خود قصد وارادے سے لٹکاتے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ تکبر سے ایسا نہیں کرتے تو ہم ان سے کہیں گے کہ اگر تم اپنے کپڑوں کو خود ٹخنوں سے نیچے لٹکاؤ اور تمہارا مقصد فخر وغرور نہ ہو تو ٹخنے سے نیچے لٹکائے جانے والے کپڑے کی وجہ سے تمہیں آگ کا عذاب ہوگا اور اگر تم فخر و غرور کے ساتھ لٹکاؤ تو تمہیں اس سے زیادہ بڑا عذاب ہوگا اور وہ یہ کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ تم سے کلام نہیں فرمائے گا، تمہاری طرف دیکھے گا بھی نہیں، تمہیں پاک نہیں کرے گا اور تمہارے لیے دردناک عذاب ہوگا۔

 (۲) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  کا تزکیہ فرما دیا تھا بایں طور بذات خود آپ نے گواہی دی کہ وہ تکبر کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے تو کیا ان میں سے کسی نے بھی اس طرح کا تزکیہ اور شہادت حاصل کر رکھی ہے۔ بات یہ ہے کہ شیطان بعض لوگوں کے لیے کتاب وسنت کے متشابہ نصوص کی اتباع کا دروازہ کھول دیتا ہے تاکہ ان کے لیے ان کے عمل کا جواز فراہم کر سکے لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہے صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرما دیتا ہے۔ ہم اپنے لیے اور ان کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے ہدایت و عافیت کی دعا کرتے ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ258

محدث فتویٰ

تبصرے