السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بہت عرصہ سے یہ حدیث مجھے معلوم ہے اس پر عمل پیرا ہوں۔ حدیث یہ ہے:
(َسَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی۔ ھَذَِہِ الاُمَّة۔ عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِینَ فِرْقَة کُلُّھَا فِیی النَّارِ أِلاَّ وَاحِدَةمَنْ کَانَ عَلَی مِثْلِ مَا أَنَا عَلَیہِ الْیَومَ وَاصْحَابِی)
’’میری امت یعنی یہ امت۔ تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ ایک کے سوا سب جہنم میں جائیں گے اور وہ ایک (نجات پانے والا فرقہ) وہ ہے جو اس طریقے پر ہے جس طریقے پر ہوگاجس پر اب میں اور میرے صحابہ ہیں۔‘‘
مجھے یہ حدیث اسی طرح معلوم ہے۔ لیکن ایک دن میں ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا اس میں یہی حدیث ذکر کی گئی تھی۔ لیکن آخری الفاظ اس طرح تھے:
(کُلُّھُمْ فِیی النَّارِ أِلاَّ وَاحِدۃً)
’’ایک کے سوا سب جہنم میں جائیں گے‘‘
اللہ کی قسم! اس روایت سے مجھے سخت خلجان پیدا ہوا۔ کیا واقعی ایک کے سوا سب فرقے جہنم میں جائیں گے، یا ایک کے سوا سب جنت میں جائیں گے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تمام روایتوں میں حدیث کے یہی الفاظ ہیں:
(کُلُّھُمْ فِی النَّارِ أِلاَّ وَاحِدة)
’’ایک کے سوا سب جہنم میں جائیں گے‘‘
اور یہی ثابت ہے۔ یہ الفاظ کہ
(کُلُّھُمْ فِیی الْجَنَّة أِلاَّ وَاحِدة)
’’ایک کے سوا سب جنت میں جائیں گے‘‘
ان کی کوئی اصل نہیں۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّمَ
اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن بازفتویٰ (۴۱۶۱)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب