السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں انیس سالہ نوجوان ہوں۔ الحمد للہ تمام نمازیں حتیٰ کہ فجرکی نماز بھی مسجد میں باجماعت ادا کرتاہوں۔ بسااوقات مسجد میں اذان بھی دیتاہوں، قرآن مجید سے تقریباً چھ پارے حفظ کئے ہیں۔ لیکن ایک چیز مجھے بہت پریشان کرتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب میں تنہا ہوتا ہوں یعنی جب کمرے میں اکیلا بیٹھا ہوتا ہوں، یا جب سونے کیلئے لیٹتا ہوں تومجھے اس قسم کے خیالات آنے لگتے ہیں۔ مثلاً میں لندن چلا گیا ہوں اور بری لڑکیوں کی محفل میں ہوں اور نعوذباللہ بدکاری کاارتکاب کیا ہے۔ تو کیا اس سے مجھے گناہ وہگا؟ حالانکہ اس سے مجھ پر عملی طور پر کوئی ایسا اثر نہیں ہوتا کہ خود لذتی (مشت زنی) کا ارتکاب کردوں، الا یہ کہ شاذونادر ایسا ہوجاتا ہے، مجھے ڈرلگتا ہے کہ کہیں مجھ وہ حدیث صادق نہ آرہی ہو جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس کو اس کی نماز بے حیائی اوربرائی سے نہیں روکتی اللہ اسے مزید دورکردیتا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(۱) سوال میں مذکودلی خیالات اور وسوسوں پر اللہ کے ہاں مؤاخذہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ صحیح حدیث ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أِنْ اللّٰہ تعالی تجاوز لأمتی عما حدثت به أنفسھا مالم تعمل أوتکلم به»
’’اللہ تعالیٰ نے میری امت کو وہ چیزیں معاف کردیں ہے جو دل میں خیالات کی صورت میں ہوں جب تک انہیں (زبان سے) بولانہ جائے یا عمل نہ کیا جائے۔‘‘ [1]
(۲) اپنے ہاتھ سے صنفی خواہش پوری کرنا جسے خود لذتی (مشت زنی) کہتے ہیں، حرام ہے۔
(۳) آپ نے جوحدیث ذکر کی ہے وہ ضعیف ہے۔ لیکن کئی صحابہ کارم اور تابعین سے اس مفہوم کے اقوال مروی ہیں امید ہے کہ آپ وسوسوں میں مشغول نہیں ہوں گے جب کہ آپ عملی طور پر گناہوں سے بچتے رہیں۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّمَ
اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن بازفتویٰ(۷۴۸۴)
[1] صحیح بخاری حدیث نمبر: ۵۶۲۹۔ صحیح مسلم حدیث نمبر: ۱۲۷
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب