سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(115) دنیا میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا

  • 8093
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 4313

سوال

(115) دنیا میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا دنیا میں اللہ تعالیٰ کی زیارت ظاہر طور پر ہوسکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ کی بنیاد پر توقیف پرہے۔ کسی کے لئے یہ چیز اسی وقت ثابت ہوتی ہے جب اس کے پاس دلیل موجود ہو۔ قرآن مجید سے واضح ہوتا ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔ جب انہوں نے یہ خواہش ظاہر کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (لَنْ تَرَانِی) ’’تو مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکے گا۔‘‘ اور حدیث سے ظاہر ہوتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے آنکھوں سے اللہ کی زیارت نہیں کی‘ صحیح مسلم میں حضرت مسروق رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ’’میں(ام المومنین ) عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر تھا۔ ام المومنین نے فرمایا: ’’اے عائشہ[1]  تین باتیں ایسی ہیں، جس نے ان میں سے کوئی ایک بات کہی اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا…‘‘مسروق کہتے ہیں ’’میں ٹیک لگائے بیٹھا تھا، (یہ بات سن کر) میں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور عرض کی’’اے ام المومنین! مجھے (بات کرنے کی) مہلت دیجئے او رجلدی مت دیجئے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا:

﴿وَلَقَدْ رَآہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ﴾ (التکویر۸۱؍۲۳)

او رالبتہ تحقیق اس نے اسے (آسمان کے) روشن کنارے کو دیکھا۔‘‘

﴿وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَة اُخْرٰی﴾ (النجم۵۳؍۱۳)

’’اور البتہ تحقیق اسنے اسے ایک اور مرتبہ دیکھا۔‘‘

ام المومنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

’’امت میں سب سے پہلے میں نے یہ بات رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھی تھی‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ جبرائیل تھے‘‘ میں نے انہیں اس صورت میں کبھی نہیں دیکھا جس پر انہیں پیدا کیا گیا ہے مگر ان دو موقعوں پر۔ میں نے انہیں آسمان سے اترتے دیکھا۔ ان کی عظیم خلقت نے آسمان اور زمین کے درمیان کی جگہ کو روک لیاتھا[2]

پھر ام المومنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا آپ نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿لَا تُدْرِکُه الْاَبْصَارُ وَ ہُوَ یُدْرِك الْاَبْصَارَ وَ ہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ﴾ (الانعام۶؍۱۰۳)

’’آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ آنکھوں کا ادراک کرتا ہے اور وہ باریک بین ‘ باخبر ہے۔‘‘

کیا آپ نے نہیں سنا کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں:

﴿ وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَه اللّٰہُ اِِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوحِیَ بِاِِذْنِه مَا یَشَاء اِِنَّه عَلِیٌّ حَکِیْمٌ﴾ (الشوری۴۲؍۵۱)

’’کسی انسان کیلئے یہ لائق نہیں کہ اللہ اس سے ہم کلام ہو مگر وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا یہ کہ قاصد بھیج دے اور وہ اللہ کے حکم سے جو چاہے وحی کرے بیشک وہ بلندیوں والاحکمتوں والا ہے۔[3]

صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال کیا’’کیاآپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’میں نے ایک نور دیکھا تھا۔‘‘

ایک روایت میں ہے ’’ وہ نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں؟‘‘[4]

صحیح مسلم میں ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان نبوی ہے:

(وَاعْلَمُو أَنَّه لَنْ یَرَی مِنْکُمْ أَحَدٌ رَبَّه حَتَّی یَمُوتُ)

’’جان لو! تم میں سے کوئی شخص مرنے سے پہلے اپنے رب کو ہرگز نہیں دیکھے گا۔‘‘[5]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ائمہ مسلمین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کوئی مومن دنیا میں اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا ان کا اختلاف صرف نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بارے میں ہے اور اس مسئلہ میں بھی امت کے اکثر علماء بالااتفاق یہ رائے رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دنیا میں اپنی آنکھوں سے اللہ کی زیارت نہیں کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحیح احیدیث اور صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم وائمہ کرام رحمہم اللہ  کے اقوال سے یہی بات ثابت ہوتی ہے‘‘

یہ بات عبداللہ بن عباس حفظہ اللہ  سے ثابت ہے نہ امام احمدرحمہ اللہ  اور دیگر ائمہ سے کہ انہوں نے کہا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بشم سراللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے بلکہ ان سے یا تو مطلقا ’’دیکھنے‘‘ کا لفظ ثابت ہے۔ یا ’دل سے دیکھنے کا۔‘‘ واقعہ معراج بیان کرنے والی اس کسی صحیح حدیث میں یہ ذکر نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی زیارت کی۔ رہی وہ حدیث جو ترمذی وغیرہ نے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(أَتَانی رَبِّی فِی أَحْسَنِ صُورَة)

’’میرے پاس میرا رب بہترین صورت میں تشریف لایا‘‘[6]

تویہ خواب کا واقعہ ہے جو مدینہ منورہ میں پیش آیا اور روایت میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ اسی طرح حضرت ام طفیل حفظہ اللہ  اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی جن احادیث میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کا ذکر ہے، وہ مدینہ منورہ کا واقعہ ہے اور احادیث میں ا س کی تصریح موجود ہے اور معراج تومکہ مکرمہ میں ہوئی تھی جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ  لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی﴾ (الاسراء۱۷؍۱)

’’پاک ہے وہ اللہ جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گیا۔‘‘

قرآن مجید میں صریح الفاظ میں موجود ہے کہ موسی علیہ اقامت سے فرمایا گیا تھا۔

(لَنْ تَرَانِیْ) ’’تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکے گا۔‘‘

اور اللہ کے دیدار کا معاملہ آسمان سے کتاب نازل کرنے سے عظیم ترہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿یَسْئَلُکَ اَہْلُ الْکِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْہِمْ کِتٰبًا مِّنَ السَّمَآئِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰٓی اَکْبَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَقَالُوْٓا اَرِنَا اللّٰہَ جَہْرَۃً ﴾ (النساء۴؍۱۵۳)

’’اہل کتاب آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے لکھی لکھائی کتاب ناز کریں۔ انہوں نے موسی علیہ السلام سے اس سے بھی بڑا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں صاف طور پر اللہ تعالیٰ کو دکھادیجئے۔‘‘

اس لئے جو شخص کہتا ہے کہ کوئی انسان اللہ تعالیٰ کو دیکھ سکتا ہے تو وہ گویا یہ کہہ رہا ہے کہ وہ شخص جناب موسیٰ علیہ السلام سے بھی عظیم ہے۔اور اس کادعویٰ تو اس شخص سے بھی بڑھ کر ہے جو کہنے لگے کہ ا للہ نے مجھ پر آسمان سے کتاب نازل کی ہے۔ (خلاصہ کلام یہ ہے کہ) صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم اور تابعین عظام اور ائمہ مسلمینj سب کا موقف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی زیارت آنکھوں سے آخرت میں ہوگی‘ دنیا میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن خواب میں اس کی زیارت ہوسکتی ہے اور دلو ں کے حالات کے مطابق قلبی مکاشفات اور مشاہدات ہوسکتے ہیں۔ بسا اوقات کسی شخص کا قلبی مشاہدہ اس قدر قوی ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ آنکھ سے دیدار ہوا ہے۔ یہ ا سکی غلط فہمی ہے اور دلوں کے مشاہدات بندوں کے ایمان ومغفرت کے مطابق (قوی اور ضعیف یا کم اور زیادہ) ہوتے ہیں اور اس کی مغفرت مثالی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ [7]

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز

 


[1]              حضرت مسروق کی کنیت ہے۔

[2]               یعنی وہ اس قدر عظیم الخلقت تھے کہ آسمان سے زمین تک وہی نظر آرہے تھے

[3]               صحیح بخاری حدیث نمبر: ۴۶۲۲، ۴۸۵۵، ۷۳۸۰۔ صحیح مسلم حدیث نمبر۱۷۷۔ جامع ترمذی حدیث نمبر: ۳۰۷۰

[4]               صحیح مسلم حدیث نمبر: ۱۷۸۔ جامع ترمذی حدیث نمبر: ۳۲۷۸

[5]               صحیح مسلم حدیث نمبر: ۲۹۳۱۔ سنن ابی داؤد حدیث نمبر :۴۳۱۸جامع ترمذی حدیث نمبر: ۲۲۳۵

[6]               مسند احمد ج: اص: ۳۶۸، ج:۵، ص:۲۴۳۔ جامع الترمذی حدیث نمبر: ۳۲۳۲، ۳۲۳۳۔

[7]               فتاویٰ جلد: ۲، صفحہ: ۳۳۵

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 127

محدث فتویٰ

تبصرے