السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک ہائی سکول میں استاذ ہوں (کورس میں مقرر) توحید کی کتاب میں ایک عبارت نظر سے گزری‘ جو مجھے صحیح معلوم نہیں ہوئی۔ آپ سے گزارش ہے کہ بیان فرمائیں کہ یہ عبارت کس حد تک صحیح ہے اور کیا یہ رب العالمین کے شان کے منافی تو نہیں؟ ثانوی کی دوسری کلاس میں مقرر محمد قطب کی تصنیف کردہ کتاب التوحید میں صفحہ ۲۳ سطر ۱۷میں یہ عبارت پائی جاتی ہے کہ ’’ جب اللہ کی طرف سے رسول آکر کہتا ہے۔
﴿یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ﴾ (الاعراف۷؍۵۹)
(اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں)
اور یہ بات ہر رسول نے اپنی قوم سے کہی ہے تو وہ رسول حقیقت میں اللہ کا چھینا ہوا حق حقدار کو واپس کرنے کا اعلان کررہا ہوتا ہے۔ یعنی انسان کے لئے قانون بنانے کاحق‘ حلال اور حرام‘ جائز اور ناجائز قرار دینے کا حق۔‘‘ ثانوی کی تیسری کلاس کی کتاب‘ جو اسی منصف کی تحریر کردہ ہے، اس میں صفحہ: ۸۲ میں آخری تین سطروں میں یہی بات کہی گئی ہے کہ لا الہ الا اللہ کا مطلب اقتدار کا چھینا ہوا حق‘ جس سے لوگوں کو غلام بنایا جاتا ہے، اس کے حقیقی مالک یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف لوٹانا ہے۔ میں نے تو اس عبارت کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے اور اسے جائز نا جائز نہیں کہا۔ آپ سے گزارش ہے کہ وضاحت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
معنی ومفہوم کے لحاظ سے آپ کی ذکر کردہ عبارت میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن کلام کے اسلوب میں اللہ کی شان میں بے ادبی کا پہلو پایا جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی غالب آکر اس سے اس کا حق نہیں چھین سکتا۔ بلکہ وہ غالب ہے اور بندوں سے بالا تر ہے۔ لیکن مشرک اور شریعت کے خلاف فیصلہ کرنے والے اللہ کے اس حق کے بارے میں زیادتی کے مرتکب ہوئیہ ہیں اور اس کی شریعت کی مخالفت کرتے ہیں۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ
اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز فتویٰ(۸۲۱۷)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب