سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(92) قبر پرستوں کے بارے میں شرعی حکم

  • 8070
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3121

سوال

(92) قبر پرستوں کے بارے میں شرعی حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ہمارے ہاں قبرپرستی عام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو قبرپرستوں کا دفاع کرتے اور کہتے ہیں کہ یہ مسلمان ہیں اور جہالت کی وجہ سے معذور ہیں، لہٰذا انہیں اپنی بیٹیوں کا رشتہ دینے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ حضرات ان کے کفر کے قائلین کو بدعتی کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان سے بدعتیوں والا سلوک کیا جانا چاہئے، بلکہ وہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ آپ بھی قبرپرستوں کو ان کی جہالت کی وجہ سے معذور سمجھتے ہیں، کیونکہ نے غباشی نامی ایک شخص کے تحریر کردہ ایک پمفلٹ کی تائید کی ہے جس میں اس نے قبرستوں کو معذور کہا ہے۔ لہٰذا جناب والا سے درخواست ہے کہ اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ کن معاملات میں جہالت اور لاعلمی کو عذر قرار دیا جاسکتا ہے اور کن امور میں نہیں؟ مزید برآں اس موضوع پر کچھ اہم کتابوں کی طرف راہنمائی فرمائیں، جن کی طرف اس مسئلہ میں رجوع کیا جاسکے۔ جناب کی بہت نوازش ہوگی۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی شخص کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا کہ دینی مسائل میں بے علمی کی بنا پر اسے معذور قرار دیا جائے یا نہیں اس کا دارومدار اس بات پر بھی ہے کہ اسے یہ مسئلہ کماحقہ پہنچایا جاچکا ہے یا نہیں اور اس بات پر بھی کہ مسئلہ کس حد تک واضح ہے اور کس حد تک اس میں غموض اور اخفاء پایا جاتا ہے اور اس بات پر بھی کہ کسی شخص میں اس مسئلہ کو سمجھنے کی استعداد کس قدر ہے۔ اس لئے جو شخص کسی تکلیف یا مصیبت کو دور کرنے کیلئے قبروں میں مدفون افراد سے فریاد کرتا ہے اسے وضاحت سے بتایا جانا چاہئے کہ یہ شرک ہے اور اس پر اس حد تک تمام حجت ہونا چاہئے کہ تبلیغ کافرض ادا ہوجائے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ شخص قبر پرستی پر اصرار کرے تو وہ مشرک ہے، اس سے دنیا میں غیر مسلموں والا سلوک کیا جائے اور اگر اسی عقیدہ پر مرجائے تو آخرت میں سخت عذاب کا مستحق ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا﴾ (النساء۴؍۱۶۵)

’’(ہم نے) خوشخبری دینے اور تنبیہ کرنے کیلئے رسول (بھیجے) تاکہ رسولوں (کے آنے) کے بعدلوگوں کے پاس (حق کو قبول نہ کرنے کی) کوئی حجت باقی نہ رہے اور اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘

مزید فرمایا:

﴿وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا﴾ (اسراء۱۷؍۱۵)

’’اور ہم عذاب نہیں کرتی حتی کہ رسول بھیج دیں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَ مَنْ بَلَغَ﴾ (الانعام۶؍۱۹)

’’(اے نبی! آپ فرمادیں) میری طرف یہ قرآن وحی کے ذریعے بھیجا گیا ہے تاکہ اس کے ساتھ میں تم کو بھی (اللہ کے عذاب سے) ڈراؤں اور (ان کو بھی) جن تک یہ (پیغام) پہنچے۔‘‘

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے صحیح سند سے یہ حدیث مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لاَیَسْمَعُ بِی اَحَدٌ مِنْ ھَذِہِ الاُمَّۃِ یَھُودِیٌّ وَلاَ نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوْتُ وَلَمْ یُوْمِنْ بِالَّذِی أُرْسَلَتُ بِہِ أِلاَّ کَانَ مِنْ أَصْحاَبِ النَّارِ)

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے۔ اس امت کا کوئی یہودی یا عیسائی میرے بارے میں سن لے (یعنی اسے معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے)پھر اس (دین) پر ایمان لائے بغیر مرجائے جو(دین) مجھے دے کر بھیجا گیا ہے تو وہ ضرور جہنمی ہوگا۔‘‘[1]

اس حدیث کو امام مسلم علیہ السلام نے روایت کیا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی آیات اوراحادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤاخذہ تبھی ہوسکتا ہے جب کسی کو وضاحت سے خبردی جاچکی ہو اور اس مپر حجت قائم ہوچکی ہو۔ جو شخص کسی ایسے ملک میں رہتا ہے جہاں وہ اسلام کی دعوتکے متعلق سنتا ہے، پھر وہ ایمان نہیں لاتا اور نہ اہل حق سے مل کر حق معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے کہ اسے دعوت پہنچی ہو اور وہ پھر بھی کفر پر اڑا رہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  کی‘ بیان کردہ مذکورہ بالاحدیث اس مسئلہ کی تائید میں پیش کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کے لئے موسیٰ علیہ السلام  کی قوم کا وہ قصہ بھی دلیل بن سکتا ہے جب سامری نے انہیں گمراہ کر دیا تھا اور وہ بچھڑا پوجنے لگے تھے۔ حالانکہ موسی علیہ السلام ‘ اللہ سے ہم کلام ہونے کے لئے جاتے وقت اپنے پیچھے حضرت ہارون علیہ السلام  کو اپنا نائب بنا کر چھوڑ گئے تھے۔ جب ہارون علیہ السلام  نے انہیں بچھڑے کی پوجا سے منع کیا تو انہوں نے کہا:

﴿قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْہِ عٰکِفِیْنَ حتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰی﴾ (طہٰ۲۰؍۹۱)

’’ہم تو اسی پر جمے بیٹھے رہیں گے حتیٰ کہ موسیٰ واپس ہمارے پاس آجائے۔‘‘

انہو ں نے شرک کی طرف بلانے والے کی بات مان لی اور توحید کی دعوت دینے والے کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شرک اور دھوکے کی بات مان لینے میں معذور قرار نہیں دیا کیونکہ توحید کی دعوت موجو د تھی اور موسی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید پر بھی کوئی طویل زمانہ نہیں گزرا تھا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کے جہنمیوں سے جھگڑے اور شیطان کے ان سے اظہار برائت کا واقعہ بیان کیا ہے، اس سے بھی مذکورہ بالاموقف کی تائید ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَ قَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ وَ مَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ   فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَ لُوْمُوْٓا اَنْفُسَکُمْ مَآ اَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَ مَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ (ابراہیم ۱۴؍۲۲)

’’جب معاملہ کا فیصلہ ہوجائے گا شیطان کہے گا’’بے شک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا اور پھر وعدہ خلافی کی ۔ میرا تم پرکوئی زور نہیں تھا مگر میں نے تمہیں (گمراہی کی طرف) بلایا، تم نے میری بات مان لی۔ تو (اب) مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ کو ملامت کرو۔ میں تمہیں مصیبت سے چھڑا سکتا ہوں نہ تم مجھے چھڑا سکتے ہو۔ اس سے پہلے (دنیا میں) تم جو مجھے (اللہ کا) شریک بناتے رہو ہو(کہ اللہ کے احکام کو چھوڑ کر میری باتیں مانتے رہے ہو)‘ میں اس کا انکار کرتا ہوں۔ بے شک ظالموں ہی کیلئے اذیت ناک سزا ہے۔‘‘

انہوں نے شیطان کے وعدے کو سچ مان لیا تھا، شیطان نے ان کے سامنے جھوٹ کو سچ کے رنگ میں پیش کیا اور شرک جیسے گھناؤنے جرم کو خوبصورت بنا کر پیش کیا اور وہ اس کے پیچھے لگ گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اس معاملے میں معذور قرار نہیں دیا۔ کیونکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر اس شخص کے لئے عظیم ثواب کا سچا وعدہ موجود تھا جو اس وعدے کی تصدیق کرکے اس کی شریعت قبول کرلے اور اس کے مطابق سیدھے راستے پر گامزن ہوجائے۔

جن علاقوں میں مسلمانو ں کی کثیر تعداد موجو دہے، ان کے حالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے رہنے والوں کو دوگروہ اپنی اپنی طرف کھینچے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک گروہ طرح طرح کی شرکیہ اور غیر شرکیہ بدعات کی طرف بلارہا ہے۔ وہ لوگوں کو دھوکا دینے اور اپنی بدعت کو عام کرنے کیلئے ضعیف حدیثوں اور عجیب وغریب قصے کہانیاں کا سہارا لیتا ہے اور انہیں دلکش انداز سے بیان کرکے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ دوسرا گروہ وہ حق اور ہدایت کیطرف بلاتا ہے اور اس کے بارے میں کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلائل پیش کرتا ہے اور فریق مخالف کے دعوؤں کی غلطی اور فریب کو واضح کرتا ہے۔ اس فریق کی افرادی تعداد کم ہی ہو۔ کیونکہ حق بیان کرنے میں دلیل کا اعتبار ہوتا ہے کثرت تعداد کا نہیں۔ جو شخص سمجھ بوجھ رکھتا ہے اور اس قسم کے علاقے میں رہائش پذیر ہے، وہ اہل حق کی باتیں سن کر حق کو پہچان سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ تلاش حق کی کوشش کرے، خواہشات نفسانی اور عصبیت سے بچ کر رہے، دولت مندوں کی دولت اور سرداروں کی سرداری دیکھ کر دھوکہ نہ کھائے، اس کے غوروفکر کا معیار درست ہو، عقل وفہم سے دست بردار نہ ہوچکا ہو۔ یعنی ان لوگوں میں شامل نہ ہو جن کی کیفیت ان آیات مبارکہ میں بیان ہوئی ہے:

﴿اِنَّ اللّٰہَ لَعَنَ الْکٰفِرِیْنَ وَ اَعَدَّ لَہُمْ سَعِیْرًا٭خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا ٭یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ  فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰہَ وَ اَطَعْنَا الرَّسُوْلَا٭وَ قَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ کُبَرَآئَ نَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا ٭رَبَّنَآ اٰتِہِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَ الْعَنْہُمْ لَعْنًا کَبِیْرًا﴾ (الاحزاب۳۳؍۶۴۔۶۸)

’’اللہ نے کافروں کو یقیناً دھتکار دیا ہے او ران کیلئے بھڑکتی آگ (جہنم) تیار کی ہے، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ انہیں کوئی دوست ملے گانہ مدد گار۔ جس دن آگ میں ان کے چہرے ادھر ادھر (الٹ پلٹ) کئے جائیں گے۔ (اس دن) وہ کہیں گے ’’کاش! ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور رسول کی اطاعت کی ہوتی! کہیں گے! ’’اے ہمارے مالک! ہم نے اپنے سرداروں اور بزرگوں کی اطاعت کی تو انہوں نے ہمیں راہ راست سے بے راہ کر دیا۔ اے ہمارے رب! انہیں دگنا عذاب دے اور انہیں بڑی لعنت کر۔‘‘

البتہ جو شخص غیر اسلامی ملک میں رہتا ہے اور اس نے اسلام قرآن اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کچھ نہیں سنا، تو اگر فرض کریں کہ ایساکوئی شخص موجو دہے تو اس کا حکم اہل فترت کی طرح ہے (جو ایسے زمانے میں تھے کہ سابقہ نبی کی تعلیمات فراموش کی جاچکی تھیں اور نیا نبی ابھی مبعوث نہیں ہوا تھا) مسلمان علماء کا فرض ہے کہ اسے دین اسلام کے عقائد اور اعمال کی تعلیم دیں تاکہ اس پر حجت قائم ہو اور اس کا عذر ختم ہوجائے۔ قیامت کے دن ایسے شخص سے وہی معاملہ کیا جائے گا اور ان افراد سے کیا جائے گا جو دنیا میں جنون یا کم سنی وغیرہ کی وجہ سے مکف ہی نہیں تھے۔ باقی رہے وہ شرعی احکام جو عام لوگوں کے لئے واضح نہیں ہوتے مثلاً ان میں وجہ دلالت بہت خفی ہے یا دلائل بظاہر باہم متعارض ہیں اور ترجیح میں علماء مختلف آراء رکھتے ہیں، تو اس قسم کے مسائل میں اختلاف کرنے والے پر ایمان یا کفر کا حکم نہیں لگایا جاتا۔ بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے صحیح کہا اور ا س سے غلطی ہوئی وہ عنداللہ معذور ہے اور اسے اجتہاد کا ثواب ملے گا اور جس کا اجتہاد صحیح ہوگا اسے دگنا ثواب ملے گا۔ اس قسم کے مسائل سمجھنے اور اس کا ترجمہ کرنے کی صلاحیت میں تفاوت پایا جاتا ہے۔ قرآن وحدیث کی نصوص سے واقف ہونے، صحیح اور ضعیف احادیث میں امتیاز اور ناسخ ومنسوخ کی پہچان وغیرہ میں بھی سب علماء برابر نہیں ہوتے۔

اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو اہل توحید قبر پرستوں کو کافر سمجھتے ہیں، ان کے لئے یہ درست نہیں کہ اپنے ان اہل توحیدبھائیوں کو کافر کہیں جو قبر پرستوں کو کافر قرار دینے میں تامل کرتے ہیں۔ اصل میں ان کے سامنے یہ فتویٰ لگانے میں ایک شبہ ہے وہ یہ ہے کہ ان قبر پرستوں کو کافر قرار دینے سے پہلے ان پر حجت کرنا ضروری ہے بخلاف غیر مسلموں کے مثلاً یہودی‘ عیسائی اور کمیونسٹ کہک ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں اور جو انہیں کافر نہیں سمجھتا اس کا کفر بھی واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کے حالات درست فرمائے اور دین کی سمجھ عطا فرمائے۔ ہمیں اور انہیں نفس کے شر اور گناہوں کی شامت سے محفوظ رکھے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم بغیر علم کے اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کچھ نہ کہیں۔ یہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس پر قادر ہے۔

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز


[1]              صحیح مسلم حدیث نمبر: مستدرک حاکم ج:۲، ص:۳۴۲ مسند احمد ج:۲، ص:۳۱۷، ۳۵۰ ج:۴، ص:۳۹۶،۳۹۸۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 101

محدث فتویٰ

تبصرے