سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(203) نماز کا اول وقت کون سا ہے؟

  • 803
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1425

سوال

(203) نماز کا اول وقت کون سا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز ادا کرنے کے لیے افضل وقت کون سا ہے؟ کیا اول وقت افضل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

زیادہ کامل نماز وہ ہے جسے اس وقت ادا کیا جائے جو اس کے لیے شرعاً مطلوب ہے، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے جواب میں کہ جس نے آپ سے یہ پوچھا تھا کہ اللہ عزوجل کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ فرمایا تھا:

((اَلصَّلَائُ عَلٰی وَقْتِہَا)) (صحیح البخاري، المواقیت، باب فضل الصلاة لوقتہا، ح: ۵۲۷ وصحیح مسلم، الایمان، باب بیان کون الایمان باللہ تعالی افضل الاعمال، ح:۸۵ (۱۳۹)۔)

’’اپنے وقت پر نماز کی ادائیگی۔‘‘

آپ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اول وقت میں نماز کیونکہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جنہیں جلدی پڑھنا مسنون ہے اور بعض ایسی ہیں، جن میں تاخیر مسنون ہے، مثلاً: نماز عشاء کو رات کے تہائی حصہ تک مؤخر کرنا مسنون ہے۔ ایک خاتون خانہ اگر یہ پوچھے کہ اس کے لیے افضل کیا ہے، اذان عشاء کے وقت عشا کی نماز کو ادا کرنا یا اسے رات کے تہائی حصے تک مؤخر کرنا؟ تو ہم عرض کریں گے کہ اس کے لیے افضل یہ ہے کہ نماز کو رات کے تہائی حصے تک مؤخر کرے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز کو اس قدر مؤخر کیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! عورتیں اور بچے سو گئے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، نماز پڑھائی اور فرمایا:

((اِن ھذاُ لَوَقْتُہَا لَوْ لَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰی اُمَّتِیْ)) (صحیح مسلم، المساجد، باب وقت العشاء وتاخیرہا، ح: ۶۳۸ (۲۱۹)۔

’’اگر مجھے امت کے مشقت میں پڑ جانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو نماز عشاء کا یہی وقت ہے۔‘‘

لہٰذا عورت کے لیے افضل یہی ہے کہ اگر وہ اپنے گھر میں نماز پڑھے تو اسے مؤخر کر کے پڑھے۔ اسی طرح بالفرض اگر کچھ لوگ سفر میں ہوں اور وہ یہ پوچھیں کہ ہم نماز کو جلد پڑھیں یا دیر سے؟ تو ہم عرض کریں گے کہ افضل یہی ہے کہ تم تاخیر سے نماز ادا کرو۔

اسی طرح اگر کچھ لوگ سیر وسیاحت کے لیے نکلے ہوں اور عشاء کا وقت ہو جائے تو کیا ان کے لیے نماز عشا ء کو جلد پڑھنا افضل ہے یا تاخیر سے پڑھنا؟ تو ہم عرض کریں گے کہ اگر مشقت نہ ہو تو ان کے لیے نماز کو تاخیر کے ساتھ پڑھنا افضل ہے؟

باقی نمازوں میں افضل یہ ہے کہ انہیں جلدی پڑھا جائے الا یہ کہ تاخیر کا کوئی سبب ہو، فجر، ظہر، عصر اور مغرب کی نمازوں کو جلد ادا کیا جائے گا الایہ کہ تاخیر کا کوئی سبب ہو۔

تاخیراسباب میں سے یہ بھی ہے کہ اگر گرمی شدید ہو تو نماز ظہر کو وقت کے ٹھنڈا ہونے تک مؤخر کیا جا سکتا ہے، یعنی اسے نماز عصر کے قریب تک ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے کیونکہ نماز عصر کے قریب وقت ٹھنڈا ہوتا ہے۔[1] لہٰذا گرمی سخت ہو تو افضل یہ ہے کہ اسے وقت ٹھنڈا ہونے پر ادا کیا جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

((اِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَاَبْرِدُوا بِالصَّلَاۃِ فَاِنَّ شِدَّۃَ الْحَرِّ مِنْ فَیْحِ جَہَنَّمَ)) (صحیح البخاري، المواقیت، باب الابراد بالظہر فی شدۃ الحر، ح: ۵۳۳ وصحیح مسلم، باب استحباب الابراد بالظہر… ح: ۶۱۵۔)

’’جب گرمی سخت ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی تیزی میں سے ہے۔‘‘

ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان کے لیے کھڑے ہوئے تو آپؐ نے فرمایا: (ابْرِدْ) ’’ٹھنڈا کرو‘‘ وہ پھر اذان کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ نے فرمایا: (أبْرِدْ) ’’ٹھنڈا کرو۔‘‘ وہ پھر اذان کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ نے انہیں اذان دینے کی اجازت عطا فرما ئی۔[2]

تاخیر کے اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ آخر وقت میں جماعت مل جائے اور اول وقت میں جماعت نہ مل سکتی ہو تو اس صورت میں تاخیر کے ساتھ نماز ادا کرنا افضل ہے، مثلا: ایک شخص جنگل میں ہو، نماز کا وقت ہو جائے اور اسے معلوم ہو کہ شہر پہنچ کر وہ آخری وقت میں باجماعت نماز ادا کر سکتا ہے تو کیا اس کے لیے یہ افضل ہے کہ وہ وقت پر نماز ادا کرے یا باجماعت ادا کرنے کے لیے نماز مؤخر کر کے پڑھے؟ ہم اس شخص سے یہی کہیں گے کہ نماز مؤخر کرو تاکہ اسے باجماعت ادا کر سکو بلکہ اس صورت میں باجماعت ادا کرنے کے لیے اسے مؤخر کرنا واجب ہوگا۔


[1]              فاضل مفتی رحمہ اللہ کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ابراد (ٹھنڈا کرنے) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ظہر کا سارا وقت نکال دیا جائے، حتیٰ کہ عصر کا وقت بالکل قریب ہو جائے۔ بلکہ اس کا مطلب وقت معتاد سے قدرے مؤخر کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابراد کی انتہا میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، لیکن اس میں یہ شرط ہے کہ انتظار اور تاخیر کی مدت آخر وقت تک نہ پہنچے۔ (فتح الباری، مواقیت الصلاۃ، باب الابراد بالظہر فی السفر، حدیث: ۵۳۹) اور مفتی صاحب کی رائے اس شرط کے خلاف ہے۔ (ص، ی)

[2]              صحیح البخاری، مواقیت الصلاۃ، باب الابراد بالظہر فی السفر، حدیث: ۵۳۹ صحیح مسلم، المساجد، باب استحباب الابراد بالظہر… حدیث: ۶۱۶۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ251

محدث فتویٰ

تبصرے