سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(08) اللہ اور اس کے گستاخ کے ذبیحہ کا حکم

  • 7985
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1159

سوال

(08) اللہ اور اس کے گستاخ کے ذبیحہ کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لو گ کوئی اسلامی (دینی) کام نہیں کرتے قرآن نہیں پڑھتے بلکہ قرآن مجید کی ایک آیت بھی نہیں جانتے۔ نماز پڑھتے ہیں نہ زکوٰۃ دیتے ہیں۔ دین اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرتے رہتے ہیں۔ بلکہ ایک دن میں بیس بیس بار اللہ تعالیٰ کو بھی گالی دے ڈالتے ہیں۔ جب ایسے شخص سے بات کی جائے تو کہتا ہے ’’میں مسلمان ہوں۔ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرتا ہوں۔‘‘ سوال یہ ہے کہ ہم ایسے افراد کا ذبیح کیا ہوا کھا سکتے ہیں؟ جب کہ معاشرہ میں اسطرح کے بے شمار افراد پائے جاتے ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱)  نماز کی فرضیت کا انکار کرتے ہوئے نماز چھوڑنا بالااتفاق کفر ہے، اس پر امت کا اجماع ہے۔ لاپروائی اور سستی نماز چھوڑنے کے متعلق علماء کے دوقول ہیں۔ ان میں راجح یہی ہے کہ یہ کفر ہے۔

(۲)  اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا دین اسلام کو گالی دینا کفر اکبر ہے اور یہ حرکت کرنے والا مرتد ہوجاتا ہے۔ اسے توبہ کرنے کا حکم دیا جائے گا۔ اگر توبہ کر لے تو بہتر ورنہ حاکم کا فرض ہے کہ اسے سزائے موت دے۔ ارشاد رنبوی ہے:

(مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہُ فَاقْتَلُوْہُ)(صحیح بخاری )

’’جو شخص اپنا دین بدل ڈالے اسے قتل کردو‘‘

یہ حدیث امام بخاری نے اپنی کتاب ’’صحیح‘‘ میں روایت کی ہے۔

(۳)  مرتد کے ذبح کئے ہوئے جانور کا گوشت کھانا جائز نہیں۔ لیکن اگر وہ سچی توبہ کر لے تو توبہ کے بعد اس نے جو جانور ذبح کیا وہ حلال ہے۔ اسی طرح دوسرے کافر کا بھی یہی حکم ہے جو اہل کتاب میں سے نہیں۔ اگرچہ وہ زبان سے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار بھی کرتاہو۔ کیونکہ جو شخص اسلام سے خارج کردینے والے کسی عقیدہ یا عمل پر قائم ہے تو اس کے اقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس امر پر علمائے اسلام کا اتفاق ہے۔

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 19

محدث فتویٰ

تبصرے