سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(05) بے دین اور منافق سے رابطہ رکھنا

  • 7982
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1188

سوال

(05) بے دین اور منافق سے رابطہ رکھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 جس عمارت میں میری رہائش ایک شخص رہتا ہے جو کبھی داڑھی رکھ لیتا ہے کبھی مونڈ دیتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، والدین کی نافرمانی کرتا ہے اور دین اسلام کو برا بھلا کہتاہے، حقیقت یہ ہے کہ اس میں منافقوں کی بہت سے علامتیں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی پناہہ ایک بار اس نے میری موجودگی میں دس منٹ میں سات آٹھ بار دین کوگالی دی۔ کیا ایسے شخص کو سلام کیا جاسکتا ہے حالانکہ میرے دل میں اس سے شدید نفرت ہے؟ اگر وہ سلام کرے تو کیا میں جواب دوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دین اسلام کو گالی دینا (نعوذ باللہ) صریح کفر ہے۔ جیسے کہ قرآن مجید اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿اَبِاللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِئُ وْن٭ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ ﴾ (التوبة۹/ ۶۵، ۶۶)

’’کیا تم اللہ ، اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ٹھٹھا کرتے تھے؟ معذرت نہ کرو، تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔‘‘

اس مفہوم کی اور بھی آیت کریمہ موجود ہیں۔ اسے نصیحت کرنا اور اس برائی سے روکنا ضروری ہے۔ اگر وہ نصیحت قبول کرلے تو الحمد للہ، ورنہ ایسے شخص کو سلام کرنا بالکل جائز نہیں۔ اگر وہ سلام کرے تو جواب نہ دیاجائے، اس کی دعوت قبول نہ کی جائے۔ اس کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے حتیٰ کہ وہ توبہ کر لے یا مسلمان حاکم اسے سزائے موت دے دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہُ فَاقْتَلُوْ ہُ)(صحیح بخاری، مسند احمد/۲، ۵/ ۲۳۱، سنن ترمذی، سنن ابی داود، سنن النسائی ابن ماجه)

’’جو شخص اپنا دین تبدیل کرے اسے قتل کردو،[1]اس حدیث کو امام بخاری نے اپنی کتاب ’’صحیح‘‘ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے۔ بلاشبہ مسلمان کہلانے والا شخص جب دین کو گالی دے تو اس نے اپنا دین بدل لیا۔

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِه وَصَحْبِه وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز


[1]  صحیح بخاری، کتاب الجہاد والسیر، ب: ۱۴۹ ح ۳۰۱۷، سنن ابی داؤد کتاب الحدود’ باب الحکم فیمن ارتدح ۴۳۵۱۔ جامع ترمذی ح ۱۴۵۸

۱۴۵۸

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 16

محدث فتویٰ

تبصرے