سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(257) عورتوں کے لیے سونے کا گولائی دار زیور پہننے کی حرمت

  • 7977
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2146

سوال

(257) عورتوں کے لیے سونے کا گولائی دار زیور پہننے کی حرمت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں بعض عورتیں علامہ محمد ناصرالدین البانی محدث شامی کے اس فتویٰ سے شک و شبہ میں پڑ گئی ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب آداب الزفاف (شب عروسی کے آداب) میں گولائی دار سونا پہننے کی حرمت کے متعلق دیا ہے۔ یہاں کئی عورتیں واقعتا ایسا زیور پہننے سے رک گئی ہیں اور جو عورتیں زیور پہنے ہوئی تھیں، انہوں نے ان کو گمراہ اور گمراہ کرنے والی کہا ہے۔ آپ کی اس حکم کے بارے میں کیا رائے ہے۔ خصوصاً گولائی دار سونے کے زیور کے بارے میں۔ ہمیں آپ کے فتویٰ اور دلیل کی فوری ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ یہاں یہ معاملہ بہت بڑھ چلا ہے… اللہ تعالیٰ آپ کو بخشے اور آپ کے علم میں وسعت پیدا کرے۔ (خالد۔ ۱۔ ع۔ شیببہ الدوحہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورتوں کے لیے سونا پہننا جائز ہے خواہ وہ گولائی والا ہو یا گولائی والا نہ ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس قول میں عموم ہے:

﴿اَوَمَنْ یُّنَشَّاُ فِی الْحِلْیَۃِ وَہُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍo

’’کیا وہ جو زیور میں پرورش پائے اور جھگڑے کے وقت بات کی وضاحت نہ کر سکے۔‘‘(الزخرف:۱۸)

جہاں اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ زیور پہننا عورتوں کی صفات سے ہے اور یہ زیور عام ہے خواہ سونے کا ہو یا کسی دوسری چیز کا۔

اور اس لیے بھی (جائز ہے) کہ احمد، ابوداود اور نسائی نے سند جید کے ساتھ امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ میں ریشم پکڑا اور بائیں ہاتھ میں سونا، پھر فرمایا: ’’یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔‘‘ اور ابن ماجہ نے اپنی روایت میں یہ الفاظ زیادہ کیے ہیں ((حِلٌّ لاِناثِھم)) ’’عورتوں کے لیے حلال ہیں۔‘‘

نیز درج ذیل حدیث کو احمد، نسائی اور ترمذی نے روایت کیا اور ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے۔ ابوداؤد اور حاکم نے اسے نکالا اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا۔ نیز طبرانی نے نکالا اور اسے ابن حزم نے صحیح کہا ے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اُحِلَّ الذَّھَبُ والحریرُ للاِنَاثِ مِنْ اَمَّتِی، وحُرِّمَ علی ذُکُورِھا))

’’سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لیے حلال ہیں اور مردوں پر حرام ہیں۔‘‘

اس حدیث کو سعید بن ابی ہند اور ابی موسیٰ کے درمیان انقطاع کی وجہ سے معللل کہا گیا ہے اور اس پر ایسی کوئی دلیل نہیں جس سے اطمینان ہو، جبکہ ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں کہ کس کس نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اگر بالفرض مذکورہ علت کو درست بھی سمجھ لیا جائے تو دوسری صحیح احادیث سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے جیسا کہ یہ ائمہ حدیث کے ہاں معروف قاعدہ ہے۔

اسی بات کو علمائے سلف نے قبول کیا ہے اور عورتوں کے سونا پہننے کے جواز پر کئی علماء نے اجماع نقل کیا ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ہم ان علماء میں سے بعض کے اقوال بیان کرتے ہیں۔

اسی بات کو علمائے سلف نے قبول کیا ہے اور عورتوں کے سونا پہننے کے جواز پر کئی علماء نے اجماع نقل کیا ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ہم ان علماء میں سے بعض کے اقوال بیان کرتے ہیں۔

جصاص اپنی تفسیر ج۳ ص ۳۸۸ پر سونے کی بحث میں لکھتے ہیں: ’’عورتوں کے لیے سونے کی اباحت سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے واردہ احادیث، اس کے ممنوع ہونے کی احادیث کے مقابلہ میں زیادہ واضح اور زیادہ مشہور ہیں اور آیت کی دلالت (مولف کی آیت سے مراد وہی آیت ہے جسے ابھی ہم نے ذکر کیا ہے) بھی عورتوں کے لیے اس کی اباحت کے بارے میں واضح ہے۔ عورتوں کا سونا پہننا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے زمانہ سے لے کر آج تک متواتر چلا آرہا ہے اور کسی نے ان پر گرفت نہیں کی۔ اسی طرح اخْبَارِ احَاد سے اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

اور الکیا الہراسی اپنی تفسیر القرآن: ۴/ ۳۹۱ پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿اَوَمَنْ یُّنَشَّاُ فِی الْحِلْیَة﴾

کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اس میں عورتوں کے لیے زیور کی اباحت پر دلیل ہے اور اس پر اجماع منعقد ہو چکا ہے اور اس بارے میں اتنی احادیث ہیں، جن کا شمار نہیں ہو سکتا۔

اور بیہقی نے سنن کبری: ۴/ ۱۴۲ پر کہا ہے جہاں انہوں نے بعض ایسی احادیث کا ذکر کیا ہے جو عورتوں پر سونا اور ریشم حلال ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور یہ تفصیل نہیں بتلائی کہ وہ کسی چیز کی صراحت کرتی ہے ’’یہ احادیث اور دوسری بھی جو اس معنی میں ہیں، عورتوں کے لیے سونے کے زیور پہننے کی اباحت پر دلالت کرتی ہیں اور ہم نے سونے کے عورتوں پر مباح ہونے پر اجماع ہو جانے سے استدلال کیا ہے جو ایسی احادیث کو منسوخ قرار دیتا ہے جو خاص طور پر عورتوں کے لیے سونے کے استعمال کی تحریم پر دلالت کرتی ہیں۔‘‘

اور نووی مجموع: ۴/ ۴۴۲ پر کہتے ہیں: ’’عورتوں کے لیے ریشم پہننا اور سونے اور چاندی کے زیور استعمال کرنا احادیث صحیحہ کی بنیاد پر اجماع کی رو سے جائز ہے۔‘‘

نیز: ۶/ ص ۴۰ پر کہتے ہیں: ’’مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورتوں کے لیے سونے اور چاندی کا ہر طرح کا زیور پہننا جائز ہے۔ جیسے طوق، ہار، انگوٹھی، کنگن، پازیب، پہنچیاں، گلوبند اور ان کے علاوہ ہر وہ چیز جو گلے میں پہنی جائے اور ہر وہ چیز جسے پہننے کی وہ عادی ہوں اور اس سے کسی چیز میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘

صحیح مسلم کے باب ’’مردوں پر سونے کی انگوٹھی کی حرمت اور ابتدائے اسلام میں اس کی اباحت کا نسخ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے کہا ہے: ’’عورتوں کے لیے سونے کی انگوٹھی کی اباحت پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔‘‘

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حدیث براء کی شرح میں کہتے ہیں: ’’ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات چیزوں سے منع کیا۔ سونے کی انگوٹھی سے… الحدیث‘‘ چنانچہ وہ ج۱۰ ص ۳۱۷ پر لکھتے ہیں: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع کرنا، مردوں سے مختص ہے۔ عورتوں کے لیے جائز ہے۔‘‘ چنانچہ انہوں نے عورتوں کے لیے اس کی اباحت پر اجماع نقل کیا ہے۔

اور سابقہ حدیثوں کے ساتھ یہ حدیث ملا لنے سے یہ احادیث عورتوں کے لیے گولائی دار اور بغیر گولائی ہر طرح کے زیور کے حلال ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اہل علم کا اجماع جو مذکورہ ائمہ نے ذکر یا ہے اس کی وجوہ درج ذیل احادیث ہیں:

(۱) ابوداؤد اور نسائی نے عمرو بن شعیب سے، اپنے باپ سے، اپنے دادا سے روایت کیا ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی۔ جس کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے پوچھا: ’’ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟‘‘ وہ کہنے لگی: ’’نہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تجھے ان کے بدلے آگ کے دو کنگن پہنائے۔‘‘ اس نے وہ دونوں کنگن اتارے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ڈال کر کہنے لگی: ’’یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔‘‘

گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کنگنوں پر زکوٰۃ واجب ہونے کی تو وضاحت کر دی۔ لیکن اس کی بٹی کے ان کنگنوں کے پہننے کو برا نہ سمجھا۔ جو اس کے جائز ہونے پر دلالت کرتا ہے اور یہ کنگن گولائی دار تھے اور یہ حدیث صحیح اور اس کی اسناد جید ہیں۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بلوغ المرام میں اس پر تنبیہہ کی ہے۔

(۲)سنن ابی داؤد میں صحیح اسناد کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نجاشی کی طرف سے ایک زیور پیش کیا گیا، جو اس نے ہدیۃ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا۔ اس میں ایک سونے کی انگوٹھی تھی جس میں ایک حبشی نگینہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض کرتے ہوئے کسی لکڑی یا اپنی کسی انگلی سے پرے ہٹایا۔ پھر ابوالعاص کی بیٹی امامہ، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی زینب کی بیٹی تھی، کو بلایا اور اسے کہا: ’’بیٹی! یہ پہن لو۔‘‘ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ انگوٹھی امامہ کو دے دی اور یہ گولائی دار سونا تھا جسے آپ نے پہننے کو کہا۔ گویا یہ حدیث گولائی دار سونے کے حلال ہونے پر نص ہے۔

(۳)جس حدیث کو ابوداؤد اور دارقطنی نے روایت کیا اسے حاکم نے صحیح کہا ہے۔ جیسا کہ بلوغ المرام میں ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں سونے کی پازیب پہنے ہوئے تھی۔ میں نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! کیا یہ کنز (کے حکم میں) ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تو ان کی زکوٰۃ ادا کر دے تو یہ کنز نہیں۔‘‘

رہی وہ احادیث جن سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے لیے سونا پہننے کی ممانعت ہے تو وہ شاذ ہیں اور ان احادیث کے مخالف ہیں جو ان سے صحیح تر اور مضبوط تر ہیں اور ائمہ حدیث نے یہ طے کیا ہے کہ جو احادیث جید اسناد سے ہوں مگر وہ ایسی احادیث کے مخالف ہوں جو ان سے صحیح تر ہوں اور ان میں تطبیق ممکن نہ ہو، نہ ہی ان کی تاریخ معلوم ہو تو انہیں شاذ سمجھا جائے گا۔ نہ ان کی طرف رجوع کیا جائے گا اور نہ ان پر عمل کیا جائے گا۔ چنانچہ حافظ عراقی ’’الفیہ‘‘ میں کہتے ہیں:

وذو الشُّذوذِ مَا یُخَالفُ الثِّقَة     فیه الْمَلَأَ فالشَّافعی حَقَّقَه

’’امام شافعی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق کہ جب ایک ثقہ ثقات جماعت کی مخالفت کرے تو ایک ثقہ کی حدیث شاذ ہوگی۔‘‘

اور حافظ ابن حجر ’’نخبۃ‘‘ میں کہتے ہیں جس کا ماحصل یہ ہے:

فان خُولِفَ بارْجَح فالرَّاجِعُ                                                    الْمَحْفوظُ ومقابلُہ ومقابلُہ الشَّاذُ

’’یعنی اگر ثقہ اوثق (زیادہ ثقہ) کی مخالفت کرے تو ثقہ کی روایت شاذ اور اوثق کی روایت محفوظ شمار ہوگی۔‘‘

ائمہ حدیث کہتے ہیں کہ صحیح حدیث کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس پر عمل ہوتا رہا وہ شاذ نہ ہوگی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جن احادیث میں عورتوں کے لیے سونے کی حرمت کا ذکر آیا ہے اگر ان کی اسناد کوعلتوں سے محفوظ وسلامت مان بھی لیا جائے تو بھی ان میں اور ان صحیح احادیث میں تطبیق ممکن نہیں جو عورتوں کے لیے سونے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور ان کی تاریخ معلوم نہ ہو تو ایسی احادیث پر شذوذ کا حکم لگانا واجب ہے اور اہل علم کے ہاں اس معتبر شرعی قاعدہ کے مطابق ان پر عمل کرنا درست نہیں۔

اور جو کچھ ہمارے دینی بھائی علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی نے اپنی کتاب ’’آداب الزفاف‘‘ میں ذکر کیا، وہ یہ ہے کہ آپ نے حلت وحرمت والی دونوں قسم کی احادیث میں یوں تطبیق کی کہ گولائی دار زیوروں کو حرمت والی احادیث پر محمول کیا اور دوسرے زیوروں کو جواز والی احادیث پر، تو یہ بات صحیح نہیں۔ نہ ہی یہ ان صحیح احادیث کے مطابق ہے جو جواز پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ ان میں انگوٹھی کا جواز ہے اور وہ گول ہے اور کنگنوں کا جواز ہے اور وہ بھی گول ہیں۔ جن سے اسی بات کی وضاحت ہوتی ہے، جو ہم نے ذکر کی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ جو احادیث سونے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں وہ مطلق ہیں، مقید نہیں ہیں۔ لہٰذا ان احادیث کے اطلاق اور ان کیا سناد کی صحت کی وجہ سے انہیں ہی قبول کرنا واجب ہے اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اہل علم کی ایک جماعت کا ایسی احادیث کے منسوخ ہونے پر اجماع ہے جو حرمت پر دلالت کرتی ہیں۔ جیسا کہ ابھی ابھی ہم نے ان کے اقوال نقل کیے ہیں۔ اور یہی بات درست ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ اس سے شبہ زائل ہو جاتا ہے اور وہ شرعی حکم واضح ہو جاتا ہے جس میں شک نہیں اور وہ یہ ہے کہ سونا امت کی عورتوں کے لیے حلال اور مردوں پر حرام ہے… اور اللہ تعالیٰ ہی توفیق عطا کرنے والا ہے…

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 245

محدث فتویٰ

تبصرے