سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(197) ’’الصلوة خير من النوم،، پہلی اذان میں کہا جائے یا دوسری میں؟

  • 797
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1623

سوال

(197) ’’الصلوة خير من النوم،، پہلی اذان میں کہا جائے یا دوسری میں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’’الصلاة خير من النوم‘‘ کے الفاظ پہلی اذان میں کہے جائیں یا دوسری میں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

’’الصلاة خير من النوم‘‘ کے الفاظ پہلی اذان میں کہے جائیں جیسا کہ حدیث میں واردہوا ہے:

«فَاِذَا اَذَّنْت أذان الصبحَ الْأَوَّلِ فَقُلْ: ’’ اَلصَّلَاةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ‘‘»مسند احمد: ۴۰۸/۳۔

’’جب تم صبح کی پہلی اذان دو تو یہ کہو:’’الصلاة خير مِّن النوم‘‘

اس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ الفاظ پہلی اذان میں ہیں، دوسری میں نہیں، لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ اس حدیث میں اذان اول سے مراد کیا ہے؟ اس سے مراد وہ اذان ہے جو وقت شروع ہونے کے بعد ہوتی ہے۔ اور دوسری اذان سے مراد اقامت ہے، کیوں کہ اذان کو بھی اقامت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«بَيْنَ کُلِّ اَذَانَيْنِ صَلَاةٌ» (صحيح البخاري، الاذان، باب بين کل اذانين صلاة لمن شاء، ح: ۶۲۷ وصحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب بين کل اذانين صلاة، ح:۸۳۸)

’’ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔‘‘

اس حدیث میں دو اذانوں سے مراد اذان اور قامت ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ: ’’امیرالمومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ  نے جمعہ کے دن تیسری اذان کا اضافہ کیا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اذان اول جس میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ  کو ’’الصلاة خير من النوم‘‘ کہنے کا حکم دیا گیا ہے، اس سے مراد نماز فجر کے لیے دی جانے والی اذان ہے۔ وہ اذان جو طلوع فجر سے قبل ہوتی ہے، وہ فجر کے لیے نہیں ہوتی، لوگ رات کے آخری حصے کی اس اذان کو فجر کی پہلی اذان کے نام سے موسوم کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اذان نماز فجر کے لیے نہیں ہوتی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«اِنَّ بِلَا لَا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ ليوقظ نائمکم ويرجع قائمکمْ » (صحيح البخاري، الاذان، باب الاذان قبل الفجر، ح: ۶۲۱، ۶۲۲ وصحيح مسلم، الصيام، باب بيان ان الدخول فی الصوم يحصل… ح: ۱۰۹۲، ۱۰۹۳)

’’بے شک بلال رات کو اذان کہتے ہیں‘‘ تاکہ سونے والوں کو بیدارکریں اور قیام کرنے والے (نمازختم کرکے)لوٹ جائیں اور سحری کرلیں)) ۔‘‘

یعنی وہ تو اس لیے اذان کہتے ہیں تاکہ سویا ہوا اٹھ کھڑا ہو اور وہ سحری کھا لے اور قیام کرنے والا بھی لوٹ آئے اور سحری کھا لے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ  سے بھی فرمایا تھا:

«فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَکُمْ أَحَدُکُمْ» (صحيح البخاري، الاذان، باب الاذان للمسافرين اذا کانوا جماعة والاقامة… ، ح: ۶۳۱ وصحيح مسلم، المساجد، باب من احق بالامامة، ح: ۶۷۴)

’’جب نماز کا وقت ہو جائے، تو تم میں سے ایک شخص تمہاری خاطر اذان دے۔‘‘

اور معلوم ہے کہ نماز کا وقت طلوع فجر کے بعد ہوتا ہے، لہٰذا طلوع فجر سے پہلے کی اذان، فجر کی اذان نہیں ہے، آج کل کے لوگوں کا یہ عمل اور فعل صحیح ہے اور ان کا یہ کہنا کہ ’’الصلاة خير من النوم‘‘ کے الفاظ اذان فجر کے لیے ہیں بجا ہے۔ جس شخص نے یہ وہم کیا ہے کہ حدیث میں اذان اول سے مراد وہ اذان ہے جو طلوع فجر سے پہلے ہوتی ہے، صحیح نہیں ۔

بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس بات کی دلیل کہ اس سے مراد وہ اذان ہے جو رات کے آخری حصے میں ہوتی ہے، یہ ہے کہ اس وقت ادا کی جانے والی نفل نماز کی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ ’’الصلاة خير من النوم‘‘ اور خیر کا لفظ افضل ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ ہم عرض کریں گے کہ خیر کا لفظ اس واجب کے لیے استعمال ہوتا ہے جو واجبات میں سے بے حد اہمیت کا حامل ہو، مثلاً: ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا هَل أَدُلُّكُم عَلى تِجـرَةٍ تُنجيكُم مِن عَذابٍ أَليمٍ ﴿١٠ تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَرَسولِهِ وَتُجـهِدونَ فى سَبيلِ اللَّهِ بِأَمولِكُم وَأَنفُسِكُم ذلِكُم خَيرٌ لَكُم إِن كُنتُم تَعلَمونَ ﴿١١﴾... سورة الصف

’’مومنو! میں تمہیں ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دلادے؟ (وہ یہ کہ) تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو۔ اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔‘‘

حالانکہ سب سے بہتر تو ایمان ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نماز جمعہ کے بارے میں فرمایا ہے:

﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا نودِىَ لِلصَّلوةِ مِن يَومِ الجُمُعَةِ فَاسعَوا إِلى ذِكرِ اللَّهِ وَذَرُوا البَيعَ ذلِكُم خَيرٌ لَكُم...﴿٩﴾... سورة الجمعة

’’مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کی یاد (نماز) کے لیے جلدی کرو اور (خریدو) فروخت ترک کر دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔‘‘

لہٰذا خیر واجب میں بھی ہو سکتی ہے اور مستحب میں بھی۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ248

محدث فتویٰ

تبصرے