سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(221) ایک عورت کی بیٹی تھی اور دوسری کا بیٹا..الخ

  • 7941
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1070

سوال

(221) ایک عورت کی بیٹی تھی اور دوسری کا بیٹا..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہاں دو عورتیں ہیں۔ پہلی کے پاس بیٹا ہے اور دوسری کے پاس بیٹی۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کے بچے کو دودھ پلایا۔ ان دوودھ پینے والے بچوں کے بہن بھائیوں میں کون دوسرے کے لیے حلال ہوں گے؟ (سعید۔ا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کوئی عورت کسی لڑکے کو ابتدائی دو سالوں کے دوران پانچ گھونٹ یا اس سے زیادہ اپنا دودھ پلائے تو وہ اس عورت کی اولاد کا اور اس کے خاوند کی اولاد کا وضیع (دودھ شریک بھائی) بن جاتا ہے۔ اب جو اولاد اس دودھ پلانے والی عورت کی ہوگی خواہ وہ اس خاوند سے ہو، جو صاحب بہن ہے یا کسی دوسرے خاوند سے ہو۔ سب اس رضیع بچہ کے رضاعی بہن بھائی بن جائیں گے۔ اور خاوند صاحب بہن کی اولاد خواہ وہ اس دودھ پلانے والی بیوی سے ہو یا کسی دوسری بیوی سے ہو، اس رضیع بچہ کے بہن بھائی بن جائیں گے اور اس دودھ پلانے والی (مرضعہ) کے بھائی رضیع کے ماموں اور رضاعی باپ کے بھائی رضیع کے چچے اور مرضعہ کا باپ رضیع کا نانا اور مرضعہ کی ماں رضیع کی نانی اور رضاعی باپ کا باپ رضیع کا دادا اور اس کی ماں رضیع کی دادی بن جائے گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ محرمات کے بارے میں سورہ نساء میں فرماتے ہیں:

﴿وَ اُمَّہٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَ اَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَة﴾

’’اور وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعی بہنیں بھی۔‘‘ (النساء: ۲۳)

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَب))

’’رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((لَا رِضَاعَ الَّا فی الْحَولَیْنِ))

’’رضاعت وہی معتبر ہے جو بچپن کے ابتدائی دو سالوں میں ہو۔‘‘

اور جیسے صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ ’’جو کچھ قرآن میں اترا وہ دس گھونٹ تھے، جن سے حرمت ہوتی تھی۔ پھر وہ حکم پانچ گھونٹ کے حکم سے منسوخ ہوگیا اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو اسی پر عمل تھا۔‘‘ یہ الفاظ ترمذی کے ہیں اور اس کی اصل صحیح مسلم میں موجود ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 207

محدث فتویٰ

تبصرے