سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(198) میری بیوی اپنے گھر والوں کی عادت کے طور پر برقع پہنتی ہے

  • 7918
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 879

سوال

(198) میری بیوی اپنے گھر والوں کی عادت کے طور پر برقع پہنتی ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اپنے گاؤں کی ایک لڑکی کے ساتھ شادی کی۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری بیوی کا کردار بلند ہے۔ میں نے اسے دینی امور سے متعلق تعلیم دی ہے اور ہمارے ہاں عورتیں برقع پہنتی ہیں۔ میں نے باتوں باتوں میں اپنی بیوی سے کہا کہ وہ چادر سے پردہ کرے اور برقع چھوڑ دے۔ اس نے چند دن کے لیے تو میری بات مان لی لیکن پھر وہی پہلا طریقہ شروع کر دیا۔ کیونکہ اس کے گھر والوں کے گھریلو نظام میں اسی پر عمل ہوتا ہے اور میری بیوی ان کاموں میں انہی کی تائید کرتی ہے اور ہمارے ہاں بعض لوگوں کی یہی عادت ہے جبکہ میری بیویا پنے میکے میں رہتی ہے اور ان کے ہاں کوئی ایسا شخص نہیں ہوتا جو گھر کی دیکھ بھال کرنے والا ہو۔

میرا سوال یہ ہے کہ آیا میں اپنی بیوی کو برقع چھوڑنے اور چادر سے معروف طریقہ پر پردہ کرنے کا پابند کر سکتا ہوں، یہ خیال رہے کہ برقع سے اس کی آنکھوں کے سوا کوئی چیز ظاہر نہیں ہوتی؟ پھر کیا میں اپنی بیوی کے گھر والوں سے یہ مطالبہ کر سکتا ہوں کہ وہ اسے چھوڑ دیں تاکہ وہ میرے ساتھ چلے؟ میں آپ سے شافی جواب پانے کی توقع رکھتا ہوں۔‘‘(ناصر۔ ا۔سراۃ۔ عبیدہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر برقع دو آنکھوں یا ایک آنکھ کے سوا باقی چہرہ چھپا لیتا ہے تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ ایسے برقعہ سے اس عورت کو پردہ دار ہی سمجھا جائے گا جو زینت کو ظاہر کرنے والی نہیں اور اس معاملہ میں ہر قوم کی اپنی اپنی عادت ہوتی ہے۔

رہا آپ کا اس کے گھر والوں سے یہ مطالبہ کہ وہ اس کو آپ کے حوالہ کر دیں تو یہ بات آپ ہی کی طرف لوٹتی ہے… جب گھر والوں کو آپ کی بیوی سے کوئی حاجت ہو اور وہ ان کے ہاں رہے تو اس میں آپ کا کچھ نقصان نہیں۔ آپ کے لیے بہتر یہ ہے کہ آپ اس معاملہ میں فراخدلی سے کام لیں۔ کیونکہ اس بات میں ان کی حاجت پوری ہونے میں تعاون اور ان کے لیے آسانی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

((یَسِّرُوا ولَا تُعَسِّرُوا))

’’لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو، تنگی نہ پیدا کرو۔‘‘

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((مَنْ کَانَ فی حَاجَة اخِیْہِ، کانَ اللّٰہُ في حَاجَتِہ))

’’جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہوتا ہے۔‘‘

اور اس باب میں بہت سی صحیح احادیث ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بات کی توفیق دے جو اسے پسند ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 183

محدث فتویٰ

تبصرے