السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شریعت اسلامیہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ طلاق مرد کے حقوق میں سے ایک حق ہے لیکن علماء کی اکثریت نے خاوند کے اپنے اس حق کو اپنی بیوی کو دے دینے میں یعنی اپنے آپ کو طلاق دینے میں اور وکیل بنانے کے مسئلہ میں کئی راہیں اختیار کیں ہیں، جیسا کہ خاوند کسی شخص کو یہ حق دے دے کہ وہ اس کی بیوی کو طلاق دے سکے۔
میرا سوال یہ ہے کہ آیا ایسا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟ (سلیمان۔ م۔ طیبہ کالج۔ الریاض)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
طلاق کے لیے عورت کو یا کسی دوسرے کو وکیل بنانے کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث نہیں جانتا۔ لیکن علماء نے یہ مسئلہ کتاب وسنت کے ان دلائل سے اخذ کیا ہے جو مالی حقوق اور ان سے ملتے جلتے حقوق کے لیے کسی نیک چلن آدمی کو وکیل بنانے کے سلسلہ میں ملتے ہیں اور طلاق مرد کے حقوق میں سے ایک حق ہے تو اگر وہ اپنی بیوی کو خود طلاق دینے کے معاملہ میں وکیل بنائے یا کسی دوسرے شخص کو بیوی کی طلاق میں وکیل بنائے جس میں اسے وکیل بنانے کی اسناد درست ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں جبکہ اس بارے میں شرعی قاعدہ کے مطابق عمل کیا جائے لیکن خاوند کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کو تین طلاق واقع کرنے کے لیے وکیل بنائے، کیونکہ یہ بات خاوند کے اپنے لیے بھی جائز نہیں۔ لہٰذا وکیل بنانے کے لیے یہ بات بدرجہ اولیٰ جائز نہ ہوئی۔ جیسا کہ نسائی نے اسناد جید کے ساتھ محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی کے متعلق خبر دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات پر غصہ آگیا اور فرمایا:
((اَیُلْعَبُ بِکتابِ اللّٰہِ وانَا بین اَظْھُرِکُم)) (الحدیث)
’’کتاب اللہ سے یوں کھیلا جا رہا ہے جبکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔‘‘
اور صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی نے ان سے طلاق سے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ جواب دیا کہ اگر تم نے تین طلاقیں دی ہیں تو تم نے اپنے پروردگار کے ایک ایسے حکم کی نافرمانی کی جو اس نے تمہاری بیوی کو طلاق کے بارے میں تمہیں دیا تھا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب