السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب عورت اپنے خاوند سے یوں کہے کہ اگر تو نے یہ کام کیا تو تو مجھ پر ایسے ہی حرام ہے جیسے میرا باپ، یا اس پر لعنت کرے یا اس سے اللہ کی پناہ چاہے… یا اس کے بالعکس کے بالعکس صورت ہوب۔ تواس کا کیا حکم ہے؟ (جاری۔ ع۔ سبت العلایا)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر عورت اپنے خاوند کو حرام قرار دے یا اسے اپنے کسی محرم سے تشبیہ دے تو اس کا حکم قسم کا حکم ہے‘ طہار کا نہیں۔ کیونکہ قرآن کریم کی نص کی رو سے ظہار صرف مرد ہی اپنی عورتوں سے کر سکتے ہیں۔
اور عورت پر قسم کا کفارہ لازم ہے جو دس مسکینوں کا کھانا ہے۔ ہر مسکین کو اس شہر کی غذا سے نصف صاع دینا ہوگا جس کی مقدار ڈیڑھ کلو ہے یا وہ عورت دس مسکینوں کو صبح کا یا شام کا کھانا کھلا دے یا انہیں ایسی پوشاک دے جو کم از کم نماز ادا کرنے کو کافی ہو تو کفارہ ہو جائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَ لٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَة فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَة اَیَّامٍ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ وَ احْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo﴾
’’اللہ تمہاری بلا ارادہ قسموں پر مواخذہ نہیں کرے گا۔ لیکن جو قسمیں تم پختہ کر لو (پھر پورا نہ کرو۔) ان پر مواخذہ کرے گا۔ تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل وعیال کو کھلاتے ہو۔ یا ان کو کپڑے دینا، یا ایک غلام آزاد کرنا اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسمیں کھا لو (اور اسے پورا نہ کرو) اور تمہیں چاہیے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔‘‘(المائدہ: ۸۹)
اور اگر عورت اس چیز کو حرام کرتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے حلال کیا ہے تو اس کا حکم قسم کا حکم ہے۔ اسی طرح اگر مرد اس چیز کو حرام کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کی بیوی کے سوا اس کے لیے حلال کی ہے تو اس کا حکم بھی قسم کا حکم ہوگا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿یٰٓاََیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاۃَ اَزْوَاجِکَ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌo قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمْ تَحِلَّة اَیْمَانِکُمْ وَاللّٰہُ مَوْلَاکُمْ وَہُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُo﴾
’’اے نبی! جو چیز اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے اسے حرام کیوں کرتے ہو؟ کیا (اس سے) اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو؟ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اللہ نے تمہارے لیے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے۔ اور اللہ ہی تمہارا کارساز ہے اور وہ دانا (اور) حکمت والا ہے۔‘‘(التحریم: ۱۔۲)
مگر جب مرد اپنی بیوی کو حرام کرے گا تو اہل علم کے صحیح تر قول کے مطابق اس کا حکم ظہار کا حکم ہوگا۔ جبکہ یہ تحریم ایفائے وعدہ کی صورت میں ہو یا کسی شرط سے مشروط ہو۔ جس سے مقصود ایگخت، ممانعت، تصدیق یا تکذیب نہ ہو۔ جیسے وہ یوں کہے: تو مجھ پر حرام ہے یا میری بیوی مجھ پر حرام ہے یا محرم ہے جبکہ رمضان آجائے یا ایسی ہی کوئی بات کہے تو اس کا حکم اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق ’’تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پشت‘‘ کا حکم ہوگا اور یہ حکم علماء کے صحیح تر قول کے مطابق ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا او ر یہ کہنا حرام، مکروہ بات اور جھوٹ ہے اور ایسا کہنے والے پر اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ لازم ہے اور ظہار کا کفارہ رجوع کرنے سے پیشتر ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ مجادلہ میں فرماتے ہیں:
﴿الَّذِیْنَ یُظَاہِرُوْنَ مِنْکُمْ مِّنْ نِّسَائِہِمْ مَا ہُنَّ اُمَّہَاتِہِمْ اِِنْ اُمَّہَاتُہُمْ اِِلَّا اللَّائِی وَلَدْنَہُمْ وَاِِنَّہُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْکَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورًا وَّاِِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌo﴾
’’تم میں سے جو لوگ اپنی عورتوں کو ماں کہہ دیتے ہیں وہ ان کی مائیں نہیں (بن جاتیں) ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وہ پیدا ہوئے۔ بے شک وہ نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں اور اللہ بڑا معاف کرنے والا (اور) بخشنے والا ہے۔‘‘(المجادلہ: ۲)
پھر فرمایا:
﴿وَالَّذِیْنَ یُظَاہِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِ ہِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْریْرُ رَقَبَة مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَاسَّاذٰلِکُمْ تُوْعَظُوْنَ بِہٖ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَاسَّا فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِِطْعَامُ سِتِّینَ مِسْکِیْنًا﴾
’’اور جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ بیٹھیں۔ پھر اپنے قول سے رجوع کر لیں تو (انہیں) ہمبستر ہونے سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔ اس حکم سے تمہیں نصیحت کی جاتی ہے اور جو کجھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے اور جس شخص کو غلام میسر نہ آئے تو وہ ہمبستر ہونے سے پہلے متواتر دو ماہ کے روزے رکھے اور جو یہ بھی نہ کر سکے وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔‘‘ (المجادلہ: ۳۔۴)
اور جب کوئی شخص غلام آزاد کرنے اور روزے رکھنے سے عاجز ہو تو اس پر ہر مسکین کے لیے شہر کی خوراک سے نصف صاع طعام دینا واجب ہے۔
اور اگر عورت اپنے خاوند پر لعنت کرے یا اس سے اللہ کی پناہ مانگے تو یہ بات اس عورت پر حرام ہے۔ اس پر لازم ہے کہ اللہ کے حضور توبہ کرے اور اپنے خاوند سے معافی مانگے اور اس بات سے اس کا خاوند اس پر حرام نہیں ہو جاتا اور اس کلام کا اس پر کوئی کفارہ نہیں۔
اسی طرح اگر مرد عورت پر لعنت کرے یا اس سے اللہ کی پناہ مانگے تو وہ اس پر حرام نہیں ہو جاتی البتہ اس کلام کی وجہ سے اس پر توبہ لازم ہے اور اس بیوی سے معافی بھی مانگے جس پر اس نے لعنت کی تھی۔ کیونکہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان مرد یا عورت پر خواہ اس کی بیوی ہو یا کوئی اور ہو، لعنت کرنا جائز نہیں۔ بلکہ یہ بڑے گناہوں سے ہے۔ اسی طرح عورت کا اپنے کاوند یا کسی دوسرے مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَعْنُ الْمُومنِ کقَتْلِہ))
’’مومن پر لعنت کرنا اسے قتل کرنے کی مانند ہے۔‘‘
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((انَّ اللَّعَّانینَ لا یکونونَ شُھَدائَ ولا شُفَعائَ یومَ القیامة))
’’لعنت کرنے والے قیامت کے دن نہ گواہ بن سکیں گے اور نہ سفارشی۔‘‘
نیز فرمایا:
((سِبقابُ المسلمِ فُسُوقٌ وقِتقالُہ کفرٌ)))
’’مسلم کو گالی دینا گناہ اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب