السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں بھی اور تمام لوگ دیکھ رہے ہیں کہ اکثر لوگ حق مہر کے معاملہ میں غلو کرتے اور اپنی بیٹیوں کی شادی کے نزدیک بڑی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ نیز بعض دوسری اشیاء دینے کی شرط لگاتے ہیں… کیا ایسے اموال جو لیے جاتے ہیں وہ حلال ہیں یا حرام؟ (بشیر۔ ع۔ الخرج)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مشروع بات یہ ہے کہ مہر میں تخفیف اور اس کی رقم تھوڑی ہو اور اس بارے میں بہت سی وارد احادیث پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے اور شادی کو آسان بنانا اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی عفت پر حریص ہونا چاہیے۔ اور لڑکیوں کے اولیاء کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے لیے اموال کی شرط لگائیں۔ کیونکہ اس معاملہ میں ان کا کوئی حق نہیں۔ بلکہ حق اگر ہے تو وہ صرف عورت کا ہے۔ یا پھر خاص کر اس کے باپ کا۔ وہ ایسی شرط لگا سکتا ہے جس سے اس کی بیٹی کو تکلیف نہ ہو تاہم وہ اس شادی میں تاخیر نہ کرے اور اگر وہ اس شرط کو بھی چھوڑ دے تو یہ اس کے لیے بہتر اور افضل ہے۔ چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَاَنکِحُوْا الْاَیَامَی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِِمَائِکُمْ اِِنْ یَکُوْنُوْا فُقَرَائَ یُغْنِہِمْ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ﴾
’’اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کرایا کرو اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی۔ اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ ان کو اپنے فضل سے خوشحال کر دے گا۔‘‘(النور: ۳۲)
اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((خیرُ الصَّداقِ ایْسَرُہ))
’’بہتر حق مہر وہ ہے جو زیادہ آسان ہو۔‘‘
اس حدیث کو ابوداؤد نے نکالا اور حاکم نے صحیح قرار دیا۔
ایک عورت نے اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کر دیا اور آپ کے کسی صحابی نے اس سے شادی کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کو فرمایا:
((اِلْتَمِسْ ولَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدید))
’’حق مہر کے لیے کچھ لاؤ۔ خواہ وہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔‘‘
پھر جب اس صحابی کو یہ بھی نہ ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز پر اس کا نکاح کر دیا کہ قرآن کی جو سورتیں اسے یاد ہیں، وہ اس عورت کو سکھلا دے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے حق مہر پانچ سو درہم تھے۔ جو آج کل کے حساب سے تقریباً ایک سو تیس ریال بنتے ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کے چار سو درہم تھے تو تقریباً سو ریال بنتے ہیں۔
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَة﴾
’’تمہارے لیے رسول اللہ کی پیروی بہترین روش ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۲۱)
اور جب بھی ایسی تکالیف کم اور آسان ہوں گی، مردوں اور عورتوں کی پاک دامنی سہل ہوگی۔ فواہش اور منکرات کم ہوں گے اور امت زیادہ ہوگی۔
اور جب یہ تکالیف بڑی ہوں گی اور لوگ حق مہر کے معاملہ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی رغبت کریں گے۔ شادیاں کم ہوں گی، زنا عام ہوگا، نوجوان مرد اور عورتیں مجرد رہیں گے۔ الا یہ کہ جسے اللہ بچانا چاہے۔
لہٰذا ہر جگہ کے تمام مسلمانوں کو یہ نصیحت ہے کہ نکاح میں آسانی اور سہولت پیدا کریں اور اس معاملہ میں ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ لمبے چوڑے حق مہر کے مطالبہ سے پوری پوری پرہیز کریں۔ نیز ولیموں کے تکلفات سے بچتے ہوئے صرف شرعی ولیمہ پر اکتفا کریں جس میں زوجین زیادہ تکلف نہ کریں۔
اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کے حال کو درست فرمائے اور انہیں ہر بات میں سنت سے تمسک کی توفیق عطا فرمائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب