سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(161) سودی بنکوں کی معرفت نقدی بھیجنے کا حکم

  • 7883
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1507

سوال

(161) سودی بنکوں کی معرفت نقدی بھیجنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم ترکی مزدور ہیں جو سعودی عرب میں کام کرتے ہیں۔ ہمارا ملک ترکی ہے۔ آپ سے مخفی نہیں کہ ترکی حکومت نظام کے لحاظ سے جرمنی کا نظام اختیار کیے ہوئے ہے۔ ہمارا ملک ترکی ہے۔ آپ سے مخفی نہیں کہ ترکی حکومت نظام کے لحاظ سے جرمنی کا نظام اختیار کیے ہوئے ہے۔ ان ملکوں میں سود عام اور انتہائی حیران کن شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ حتیٰ کہ ایک سال میں ۵۰فیصد تک جا پہنچتا ہے اور ہم یہاں اس بات پر مجبور ہیں کہ ترکی میں اپنے گھر والوں کو بنکوں کی وساطت سے رقوم ارسال کریں۔ جو کہ سود کے اڈے ہیں۔

اسی طرح ہم چوری، ضائع ہو جانے اور بعض دوسرے خطرات کی وجہ سے اپنی رقوم انہی بنکوں میں رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہم آپ کی خدمت میں دو اہم سوال پیش کرتے ہیں جن کا تعلق ہم سے ہے۔ آپ ہمارے اس معاملہ کے متعلق فتویٰ مرحمت فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہماری طرف سے بہتر جزا دے۔

پہلا سوال: کیا ہم ان بنکوں سے سود لے سکتے ہیں جسے ہم فقراء پر صدقہ کریں اور اس سے عام بھلائی کی عمارات تعمیر کریں… بجائے اس کے کہ ہم یہ رقم بنک والوں کے لیے چھوڑ دیں؟

دوسرا سوال: جب یہ چیز ناجائز ہو تو کیا ہم اپنی رقم کی چوری اور ضائع ہونے سے حفاظت کی مجبوری کی خاطر ان بنکوں میں رکھ سکتے ہیں جبکہ ہم سود نہ لیں؟ اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ بنک ان رقوم کو سودی مصرف میں لگائے رکھتے ہیں۔‘‘(عبداللہ۔ م۔ الترکی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب سودی بنکوں ہی کی وساطت سے رقوم بھیجنے کی مجبوری ہو تو اس میں ان شاء اللہ کچھ حرج نہیں۔ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَ قَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ﴾ (الانعام: ۱۱۹)

’’اور جو کچھ اللہ نے تم پر حرام کیا ہے، اسے کھول کر بیان کر دیا ہے۔ الا یہ کہ تم کسی بات پر مجبور ہو جاؤ۔‘‘

اور اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور میں بنکوں کے ذریعہ رقوم بھیجنا عوام کی مجبوری ہے۔ اسی طرح حفاظت کی خفاطر بھی رقم بنک میں جمع کرانا ایک مجبوری ہے جبکہ اس میں فائدہ (سود) کی شرط نہ رکھی جائے۔ اور اگر بنک والے بغیر شرط یا معاہدہ کے صاحب مال کو سود ادا کریں تو اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں تا کہ وہ بھلائی کے کاموں میں خرچ کیا جا سکے۔ جیسے فقراء اور قرض میں ڈوبے ہوئے لوگوں کی امداد وغیرہ وغیرہ۔ صاحب مال ایسی رقم کو نہ اپنی ملکیت بنائے اور نہ اس سے کوئی فائدہ اٹھائے۔ بلکہ وہ ایسے مال کے حکم میں ہے جس کے چھوڑنے سے مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہے باوجودیکہ یہ ناجائز ذریعہ آدمنی ہے۔ لہٰذا اسے ایسے کاموں میں خرچ کرنا جن سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچے، کافروں کے ہاں چھوڑنے سے بہتر ہے، جو اس رقم سے ایسے کاموں پر اعانت کرتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ ہاں اگر اسلامی بنکوں یا کسی مباح ذریعہ سے رقم ارسال کرنا ممکن ہو تو پھر سودی بنکوں کے ذریعہ رقوم بھیجنا جائز نہ رہے گا۔ اسی طرح اگر اسلامی بنک یا اسلامی منڈی میسر آجائے تو مجبوری زائل ہونے کی بنا پر سودی بنکوں میں رقوم جمع کرانا جائز نہ رہے گا… اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 150

محدث فتویٰ

تبصرے