سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(156) بنکوں سے ڈیلنگ

  • 7878
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1248

سوال

(156) بنکوں سے ڈیلنگ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم غیر مسلموں کے ملکوں میں رہتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں وافر مال ودولت سے نوازا ہے۔ جس کی حفاظت ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس مال کو کسی امریکی بنک میں رکھیں۔ لہٰذا ہم سود لیے بغیر اپنی رقوم ان بنکوں میں رکھتے ہیں۔ بنکوں والے اس بات پر بہت خوش ہیں اور ہمیں بے وقوف ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ کیونکہ ہم جو سودی رقم ان کے ہاں چھوڑ دیتے ہیں، اسے وہ عیسائیت کی نشر واشاعت پر صرف کرتے ہیں… جبکہ یہ مال مسلمانوں کا ہوتا ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ ہم اس مال سے خود کیوں نہ فائدہ اٹھائیں۔ اس سے مسلمان فقراء کی مدد کریں یا مساجد اور اسلامی مدارس تعمیر کریں۔ اگر کوئی مسلمان یہ فائدہ لے لے تو کیا وہ گنہگار ہوگا جبکہ وہ اس مال کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف کر دے۔ جیسے مجاہدین کو چندہ دے دے۔‘‘(محمد۔ ع۔ ی۔ امریکہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سودی بنکوں میں اپنی رقوم رکھنا ناجائز ہے۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ اس بنک کو قائم کرنے والے مسلم ہیں یا غیر مسلم۔ کیونکہ اس کام میں گناہ اور سرکشی پر اعانت ہے اگرچہ سود نہ لیا جائے۔ لیکن جب کوئی شخض رقم کی حفاظت کے لیے یہ کام کرنے پر مجبور ہو اور سود نے لے تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں:

﴿وَ قَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ﴾ (الانعام: ۱۱۹)

’’اور جو کچھ اللہ نے تم پر حرام کیا ہے، اسے کھول کر بیان کر دیا ہے۔ الا یہ کہ تم کسی بات پر مجبور ہو جاؤ۔‘‘

اور اگر سود لیتا ہے تو یہ کبیرہ گناہ ہے۔ کیونکہ سود بڑے بڑے گناہوں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی کتاب کریم میں اور اپنے امین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر حرام قرار دیا ہے اور بتلایا کہ مٹا دینے کی چیز ہے اور جو شخص اس کے در پے ہوا اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے جنگ کی۔ مالدار لوگ یہ کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے اموال سے نیکی اور احسان کی راہوں میں اور مجاہدین کی مدد میں خرچ کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس کام پر اجر عطا فرمائے گا اور اس ے عوض عطا فرمائے گا۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّہَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَo﴾ (البقرۃ: ۲۷۴)

جو لوگ اپنے اموال رات کو اور دن کو، خفیہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں تو اللہ کے ہاں ان کے لیے اجر ہے۔ انہیں نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘

نیز فرمایا:

﴿وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَہُوَ یُخْلِفُہٗ وَہُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَo﴾ (سبا:۳۹)

’’جو کچھ تم خرچ کرو گے تو اللہ اس کا عوض عطا فرمائے گا اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔‘‘

یہ آیات زکوٰۃ وصدقات سب کو عام ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((مَا نَقَصَ مالٌ مِنْ صَدَقة، وما زَادَ اللّٰہُ عَبْدًا بعَفْوٍ الَّا عِزًّا، وما تَواضَعَ احَدٌ لِلّٰہِ اِلَّا رَفَعَہ))

’’صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا اور جو شخص معاف کر دے اللہ تعالیٰ اس کی عزت ہی بڑھاتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی خاطر تواضع سے پیش آئے، اللہ اسے بلند کر دیتا ہے۔‘‘

نیز یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث سے ثابت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((مَا مِنْ یَوْمٍ یُصْبِحُ فِیہِ النَّاسُ إِلَّا یَنْزِلُ فِیْہمَلَکَانِ: أَحَدُہُمَا یقولُ: اَللَّہُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا والثانی وَیَقُولُ اَللَّہُمَّ أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا))

’’کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ اس میں صبح کو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے۔ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو عطا فرما۔ اور دوسرا کہتا ہے۔ اے اللہ! بخیل کے مال کو غارت کر۔‘‘

نیکی کے کاموں میں اور حاجت مندوں پر خرچ کرنے کی فضیلت میں آیات واحادیث بہت زیادہ ہیں۔ لیکن اگر صاحب مال سودی رقم لیتا ہے، خواہ لا علمی کی بنا پر لے یا نرم روی کی بنا پر، پھر اللہ اسے نیک بختی کی راہ دکھلا دے تو وہ ایسے مال کو نیکی اور بھلائی کے کاموں میں صرف کر دے اور اپنے پاس ایسے مال سے کچھ نہ رکھے کیونکہ سود جس مال میں مل جائے اسے بھی مٹا دے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ﴾ (البقرۃ: ۲۷۶)

’’اللہ تعالیٰ سود (کا زور) توڑتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔‘‘

اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 145

محدث فتویٰ

تبصرے