سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(144) کیا مسجد نبوی کی زیارت نہ کرنے سے حج ناقص رہ جاتا ہے؟

  • 7866
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 995

سوال

(144) کیا مسجد نبوی کی زیارت نہ کرنے سے حج ناقص رہ جاتا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض حاجی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ جب تک حاجی مسجد نبوی کی زیارت نہ کرے، ان کا حج ناقص ہوتا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زیارت مسجد نبوی سنت ہے، واجب نہیں، نہ ہی اس کا حج کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔ بلکہ سنت یہ ہے کہ ہر سال مسجد نبوی کی زیارت کی جائے لیکن یہ حج کے وقت کے ساتھ مخصوص نہیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

((تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَی ثَلَاثَۃِ مَسَاجِدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِي ھذا وَمَسْجِدِ الْأَقْصَی))(متفق علیہ)

’’تین مساجد کے علاوہ کسی مقام کی طرف ثواب (زیارت، فضیلت) کی غرض سے سفر نہ کیا جائے۔ مسجد الحرام کی طرف، میری اس مسجد کی طرف اور مسجد اقصیٰ کی طرف۔‘‘

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((صَلَاۃٌ فِی مَسْجِدِی ہَذَا خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاۃٍ فِیمَا سِوَاہُ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَام)) (متفق علیہ)

’’میری اس مسجد میں ایک نماز، مسجد حرام کے علاوہ باقی مقامات پر ہزار نمازوں سے بہتر ہے۔‘‘

اور جب مسجد نبوی کی زیارت کی جائے تو اس کے لیے مشروع یہ ہے کہ ریاض الجنہ میں دو رکعت نماز نفل ادا کی جائے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر سلام پڑھا جائے۔ جیسا کہ جنت البقیع کی زیارت اور اس جگہ مدفون صحابہ وغیرہم کے لیے سلام اور دعا اور رحمہ اللہ کہنا مشروع ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی زیارت کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ سکھلایا کرتے تھے کہ جب وہ قبروں کی زیارت کریں تو یوں کہیں:

((اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَہْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَإِنَّا إِنْ شَآئَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ ، نَسْأَلُ اللّٰہُ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَة))

’’اے مومنوں اور مسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔ اگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں۔ ہم اپنے لیے اور تمہارے لیے اللہ سے عافیت چاہتے ہیں۔‘‘

اور ایک روایت میں ہے کہ جب آپ جنت البقیع کی زیارت کرتے تو یوں فرماتے:

((وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَاخِرِیْنَ، اللّٰھم اغْفِرْلاھل بَقِیعِ الْغَرْقَد))

’’اللہ تعالیٰ ہم میں سے پہلے چلے جانے والوں اور پیچھے رہ جانے والوں، سب پر رحم فرمائے۔ اے اللہ بقیع غرقد والوں کو معاف فرما۔‘‘

اور جو شخص مسجد نبوی کی زیارت کرے اس کے لیے یہ بھی مشروع ہے کہ مسجد قبا کی زیارت کرے اور اس میں دو رکعت نفل ادا کرے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتے کے دن وہاں جاتے اور اس مسجد میں دو رکعت نماز ادا کیا کرتے تھے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے گھر میں اچھی طرح طہارت کرے پھر مسجد کو آئے اور اس میں نماز ادا کرے تو عمرہ کی مانند ہے۔‘‘

یہی وہ مقامات ہیں جن کی مدینہ منورہ میں زیارت کرنا چاہیے۔ رہیں سات مساجد اور مسجد قبلتین اور ایسے ہی دوسرے مقامات جن کی زیارت کے متعلق بعض مولفین نے مناسک میں ذکر کیا ہے۔ ان کی کوئی اصل نہیں اور نہ ہی ان پر کوئی دلیل ہے اور مومن کے لیے دائمی طور پر بدعت کو چھوڑتے ہوئے صرف سنت کی اتباع ہے.......اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 136

محدث فتویٰ

تبصرے