سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(141) کونسا عمل افضل ہے نفلی حج یا اسی رقم کا افغان مجاہدین

  • 7863
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 942

سوال

(141) کونسا عمل افضل ہے نفلی حج یا اسی رقم کا افغان مجاہدین

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو شخص اپنا فرضی حج ادا کر چکا ہو اور دوسری بار حج کر سکتا ہو تو کیا اسے دوسری بار حج کرنے کے عوض یہ جائز ہوگا کہ وہ حج کے اخراجات کی رقم افغانستان کے مسلمان مجاہدین کے لیے دے دے۔ جبکہ دوسری بار حج کرنا نفلی عبادت ہے اور جہاد کے لیے چندہ دنیا فرض ہے؟ ہمیں مستفید فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو سب مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر دے۔‘‘(عبداللہ۔ ا۔ حائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص فریضہ حج ادا کر چکا ہو، اس کے لیے افضل یہی ہے کہ دوسرے حج کی رقم فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے چندہ میں دے دے۔ جیسا کہ افغان مجاہدین اور وہ مہاجرین جو پاکستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب پوچھا گیا کہ سب سے افضل عمل کونسا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔‘‘ سائل نے پوچھا: ’’پھر اس کے بعد کونسا؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد۔‘‘ سائل نے پوچھا: ’’پھر اس کے بعد کونسا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حج مبرور۔‘‘

اس حدیث کی صحت پر شیخین کا اتفاق ہے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو جہاد کے بعد قرار دیا۔ جس سے مراد نفلی حج ہی ہو سکتا ہے کیونکہ استطاعت کی صورت میں تو فرضی حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے اور صحیحین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((مَنْ جَھَّزَ غازیًا فقدْ غَزَا، ومَنْ خَلَّفَہ فی اھلِہ بخیرٍ فقدْ غَزَا))

جس نے کسی غازی کو سامان مہیا کیا تو اس نے جہاد کیا اور جس نے غازی کے گھر والوں کی ٹھیک طرح دیکھ بھال کی، تو اس نے جہاد کیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان مجاہدین اور ان جیسے دوسرے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کو اپنے بھائیوں سے مالی تعاون کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا ان دو مذکور حدیثوں اور ان کے علاوہ دوسری حدیثوں کی بنا پر نفلی حج کی نسبت اتنی رقم جہاد میں خرچ کر دینا افضل ہے… اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 135

محدث فتویٰ

تبصرے