السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر حاجی عرفہ کی حدود سے باہر، لیکن اس سے کہیں قریب ہی وقوف کرے تاآنکہ سورج غروب ہو جائے اور وہ واپس چلا آئے تو اس کے حج کے متعلق کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر عرفہ میں وقوف کے اوقات میں کوئی حاجی وہاں وقوف نہیں کرتا تو اس کا کوئی حج نہیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: الحج عرفہ (عرفہ کا وقوف ہی حج ہے) لہٰذا جو شخص طلوع فجر سے پہلے رات کے دوران عرفہ کا وقوف پا لے اس نے حج پا لیا اور عرفہ میں وقوف کا وقت عرفہ کے دن زوال آفتاب سے لے کر اگلے (قربانی والے) دن کی طلوع فجر تک ہے۔ اس بات پر اہل علم کا اتفا ق ہے۔
رہا زوال سے پہلے عرفہ میں وقوف، تو اس میں اہل علم کا اختلاف ہے اور اکثر اس وقوف کو کافی نہیں سمجھتے جب تک وہ زوال کے بعد یا رات کو وقوف نہ کرے جس شخص نے زوال کے بعد یا رات کو وقوف کیا تو یہ اس کے لیے کافی ہے اور افضل یہ ہے کہ وہ نماز ظہر اور عصر کی جمع تقدیم کے بعد غروب آفتاب تک وقوف کرے اور جس شخص نے دن کو وقوف کیا اسے غروب آفتاب سے پہلے وہاں سے واپس مڑنا جائز نہیں اور اگر وہ ایسا کرے تو اکثر اہل علم کے نزدیک اس پر قربانی لازم ہے کیونکہ اس نے واجب کا ترک کیا۔
جو شخص دن کو قوف کرتا ہے اس کے لیے دن اور رات کے وقوف کو جمع کرنے کی یہی صورت ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب