سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(124) علاج کے دوران بھک کی دوائی لینا

  • 7846
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1047

سوال

(124) علاج کے دوران بھک کی دوائی لینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اپنی عمر کے سولہویں سال میں ہوں اور تقریباً عرصہ پانچ سال سے اب تک مستشفی ملک فیصل میں خصوصی علاج کرا رہا ہوں۔ پچھلے سال ماہ رمضان میں ڈاکٹر نے حکم دیا کہ میری ورید میں کیمیاوی علاج دیا جائے اور میں روزہ دار تھا اور یہ علاج بڑا قوی، معدہ اور تمام جسم پر اثر انداز ہونے والا تھا۔ ایک دن جب میں یہ علاج کرا رہا تھا تو مجھے سخت بھوک محسوس ہوئی جبکہ ابھی فجر کو تقریباً سات گھنٹے گزرے تھے۔ عصر کے قریب مجھے اتنی درد ہوئی کہ یوں محسوس ہونے لگا کہ میں مرجاؤں گا، لیکن میں نے مغرب کی اذان تک روزہ نہ چھوڑا… اور اس سال ماہ رمضان میں ان شاء اللہ ڈاکٹر مجھے یہی علاج دینے کا حکم دے گا۔ کیا اس دن میں روزہ چھوڑ دوں یا نہ چھوڑوں؟ اور اگر میں روزہ نہ چھوڑوں تو کیا اس دن کی قضا مجھے دینا پڑے گی؟ اور کیا ورید میں خون لینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ اور اسی طرح اس علاج سے جس کا میں نے ذکر کیا ہے (روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟) مجھے مطلع فرمائے۔ جزاکم اللہ خیرا (ج۔ع۔ا۔ الریاض)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ماہ رمضان میں مریض کے لیے روزہ نہ رکھنا مشروع ہے جب کہ روزہ اسے نقصان دیتا ہو یا اس پر گراں گزرتا ہو یا دن کے وقت اسے علاج کی خاطر گولیاں کھانے یا دوائی پینے کی ضرورت پیش آئے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ﴾ (البقرۃ:۱۸۵)

’’اور جو شخص تم میں سے مریض ہو یا سفر میں ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کر لے۔‘‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ انْ تُوْتی رُخَصُہُ کما یَکْرَہُ انْ تُوْتی مَعْصیتَہٗ))

’’بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصتوں کو قبول کیا جائے۔ جیسے وہ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی کی جائے۔‘‘

اور ایک دوسری روایت میں کہا:

((کمَا یُحِبُّ انْ تُؤتی عَزائمُہ))

’’جیسے وہ پسند کرتا ہے کہ اس کے ضروری (واجبی) احکام پر عمل کیا جائے) کے الفاظ ہیں۔‘‘

رہی تحلیل یا کسی دوسرے مقصد کے لیے ورید میں خون لینے کی بات، تو صحیح قول یہی ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ لیکن اگر زیادہ خون لینا پڑے تو بہتر یہ ہے کہ اسے رات تک موخر کر دیا جائے۔ اگر دن کو کرے توپھر محتاط روش یہ ہے کہ اسے حجامت (پچھنے لگوانا) کی مانند قرار دے کر اس کی قضا دے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 124

محدث فتویٰ

تبصرے