سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(100) کیا شادی یا مکان کی تعمیر کے لیے جمع کیے ہوئے مال پر زکوٰۃ واجب ہے؟

  • 7824
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 850

سوال

(100) کیا شادی یا مکان کی تعمیر کے لیے جمع کیے ہوئے مال پر زکوٰۃ واجب ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 میں اپنی ماہوار تنخواہ سے رقم جمع کر رہا ہوں۔ کیا اس مال میں مجھ پر زکوٰۃ ہے؟ یہ خیال رہے کہ یہ رقم میں اپنے مکان کی تعمیر کے لیے جمع کر رہا ہوں اور اسی طرح اپنی شادی میں مہر کی ادائیگی کے لیے جمع کر رہا ہوں، جو ان شاء اللہ جلد ہونے والی ہے۔

چند سالوں سے میں یہ رقم ایک بنک میں جمع کر رہا ہوں کیونکہ مجھے کوئی ایسی جگہ نہ مل سکی جن میں رقم جمع کروں۔ بنک میں میرے حساب میں کچھ رقم شامل کر دیتا ہے، جو مجھ سے مخصوص نہیں اور اس رقم کو فائدہ کا نام دیا جاتا ہے (جو کہ سود ہوتا ہے) بالاخر میں نے بنک میں جمع کرائی ہوئی اپنی رقم نکلوالی اور یہ فائدہ نہیں لیا۔ اسے بنک والوں کے ہاں ہی چھوڑ دیا جو آج تک میرے نام کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔ کیا میں اسے صدقہ کر سکتا ہوں، یا اسے بنک کے لیے چھوڑ دوں، یا اس کا میں کیا کروں اور کیا میں اسے ایسے خاندان کو دے سکتا ہوں جو مال کے لیے سخت محتاج ہیں کیونکہ ان کا کمانے والا کوئی نہیں یا کسی جمعیت خیر یہ کو دے دوں؟ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے فضل میں اضافہ فرمائے۔‘‘(محمد۔ ع۔ع۔ جدہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمع شدہ مال شادی کے لیے ہو، مکان کی تعمیر کے لیے یا کسی دوسری غرض کے لیے، جب وہ حد نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال کا عرصہ گزر جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے، خواہ یہ سونا ہو یا چاندی یا کرنسی نوٹ ہوں۔ کیونکہ وجوب زکوٰۃ پر دلالت کرنے والے دلائل میں عموم ہے۔ لہٰذا بلا استثناء جو چیز بھی حد نصاب کو پہنچ جائے۔ اور اس پر سال گزر جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔

سودی بنکوں میں مال رکھنا جائز نہیں کیونکہ اس میں اثم وعدوان پر اعانت ہے اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے ہو تو جائز ہے لیکن اس کا فائدہ نہیں لینا چاہیے۔ رہا وہ فائدہ جو آج تک بنک میں آپ کے نام لکھا موجود ہے جس کے لیے آپ کی طرف سے کوئی شرط نہ تھی، راجح تر بات یہی ہے کہ اس کو آپ لے کر نیکی کے کاموں میں خرچ کر دیں۔ جیسے فقراء اور محتاجوں کو دے دیں یا پانی کی سبیلیں اور ایسے ہی دوسرے کاموں میں جو مسلمانوں کے لیے نافع ہوں۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ آپ وہ رقم بنک والوں کے پاس چھوڑ دیں، جو اسے برائی کے کاموں اور کفریہ اعمال میں صرف کریں۔ آپ نے بنک سے اپنی رقم نکلوا کر اچھا کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری اور آپ کی ہدایت اور توفیق میں اضافہ کرے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 111

محدث فتویٰ

تبصرے