سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(92) تارک نماز کے ساتھ رہنے کا حکم

  • 7816
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 995

سوال

(92) تارک نماز کے ساتھ رہنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 مجھے ایک دفعہ کسی ہسپتال میں جانا پڑا۔ میرے ساتھ دو اور آدمی اسی کمرہ میں داخل ہوئے جس میں میں رہتا تھا۔ ہم وہاں تین دن تک رہے، اس دوران میں تو نماز ادا کرتا رہا لیکن وہ نماز ادا نہیں کرتے تھے۔ حالانکہ وہ مسلمان تھے اور میرے شہر کے تھے۔ میں نے انہیں کچھ نہیں کہا۔ اب مجھ پر کوئی گناہ ہے جو میں نے انہیں نماز کے لیے نہیں کہا؟ اور اگر اس میں گناہ ہے تو اس کا کفارہ کیا ہے؟ (معمیس۔ ع)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 انہیں نصیحت کرنا آپ پر واجب تھا اور اللہ تعالیٰ کے اس قول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ان پر ترک نماز جیسے منکر عظیم پر گرفت کرنا چاہیے تھی:

﴿وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّة یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُالْمُفْلِحُوْنَo﴾ (آل عمران: ۱۰۴)

’’اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو نیکی کی طرف بلائے اور بھلے کاموں کا حکم دے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘

اور اس معنی میں اور بھی بہت سی آیات آئی ہیں۔‘‘

نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر عمل کرتے ہوئے بھی:

((مَنْ رأی منکُم مُنکَرًا فلْیُغیِّرہ بیَدِہ، فانْ لمْ یسطعْ فبلِسانِہ، فانْ لمْ یسطعْ فبقلبِہ، وذلِک اضعفُ الایمان))

’’تم میں سے جو شخص کوئی بری بات دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے اور اگر ایسا نہ کر سکتا ہو تو زبان سے بدل دے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو دل سے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ادنیٰ تر درجہ ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں نکالا ہے۔

اور جب آپ نے یہ کام نہیں کیا تو اس گناہ سے آپ پر سچی توبہ واجب ہے۔ جو یہ ہے کہ انسان اپنے کیے پر نادم ہو اور اسے کلیتاً چھوڑ دے اور آئندہ ایسا کام نہ کرنے کا پختہ عہد کرے اور یہ کام خلوص نیت سے، اللہ تعالیٰ کی عظمت کو پیش نظر رکھ کر اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید اور اس کی سزا سے ڈرتے ہوئے کرے اور جو شخص توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰیo﴾ (طٰہٰ:۸۲)

’’اور جو شخص توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھے عمل کرے پھر سیدھی راہ چلے تو میں اسے بخش دینے والا ہوں۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 102

محدث فتویٰ

تبصرے