سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(91) تارک نماز سے صلح رحمی کرنا؟

  • 7815
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 999

سوال

(91) تارک نماز سے صلح رحمی کرنا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 میرا ایک دوست ہے جس سے مجھے گہری محبت ہے۔ مگر یہ دوست نہ فرض نمازیں ادا کرتا ہے اور نہ ہی رمضان کے روزے رکھتا ہے۔ میں نے اسے نصیحت کی لیکن اس نے اسے قبول نہیں کیا، کیا اس کی کچھ اصل ہے یا نہیں۔  (موسٰی۔ ح)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس شخص اور اس جیسے دوسرے لوگوں سے اللہ کی خاطر بغض وعناد رکھنا لازم ہے، تاآنکہ وہ توبہ کر لیں۔

کیونکہ علماء کے دو اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق نماز چھوڑ دینا کفر اکبر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ تَرْکُ الصَّلَاۃ))

’’نماز چھوڑنے سے آدمی کا کفر وشرک سے فاصلہ ختم ہو جاتا ہے۔‘‘

مسلم نے اپنی صحیح میں اس حدیث کی تخریج کی ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((العھد الذی بیننا وبینھم الصلاۃ، فمن ترکھا فقد کفر))

ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان عہد نماز ہے۔ جس نے اسے چھوڑا، اس نے کفر کیا۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد اور اہل السنن نے صحیح اسناد کے ساتھ تخریج کی ہے اور اس معنی کی احادیث بہت ہیں۔

کسی شرعی عذر کے بغیر رمضان کے روزے چھوڑنا کبیرہ گناہ ہے اور بعض اہل علم ایسے شخص کو بھی کافر ہی سمجھتے ہیں جو شرعی عذر مثلاً بیماری اور سفر کے بغیر رمضان میں روزے نہیں رکھتا۔

لہٰذا آپ پر لازم ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی خاطر اس دوست سے نفرت کریں اور اس وقت تک مقاطعہ کریں، جب تک وہ اللہ کے حضور توبہ نہ کرے اور مسلمان حکام پر واجب ہے کہ جن لوگوں کے متعلق انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ تارک نماز ہیں ان سے توبہ کرائیں اگر توبہ کر لیں تو خیر، ورنہ قتل کر دیں۔ کیونکہ اللہ رب العزت فرماتا ہے:

﴿فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ﴾ (التوبة: ۵)

’’پھر اگر وہ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔‘‘

جس کا مطلب یہ ہوا کہ جو نماز نہ پڑھے، اس کی راہ نہ چھوڑی جائے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((نُہِیتُ عنْ قتلِ المُصَلِّین))

’’مجھے نماز ادا کرنے والوں کے قتل سے روکا گیا ہے۔‘‘

جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جو شخص نماز نہیں پڑھتا، اس کے قتل سے آپ کو نہیں روکا گیا، اور کتاب و سنت سے شرعی دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جو شخص نمز نہ پڑھے اور توبہ نہ کرے تو حکام کو اس کا قتل کرنا واجب ہے۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کے دوست کو توبہ کی طرف لائے اور اسے سیدھی راہ دکھائے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 101

محدث فتویٰ

تبصرے