سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(37) نہی کے اوقات میں تحیتہ المسجد کا حکم

  • 7761
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1016

سوال

(37) نہی کے اوقات میں تحیتہ المسجد کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تحیتہ المسجد کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں۔ ان میں ایک وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اوقات نہی مثلا طلوع آفتاب اور غروب کے وقت یہ نوافل ادا نہ کیے جائیں۔ اور ایک وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ تحیتہ المسجد چونکہ ذوات الاسباب سے ہیں لہٰذا ان کا کوئی وق نہیں ، وہ ہر وقت ادا کیے جاسکتے ہیں۔ حتی کہ اگر سورج آدھا غروب ہوچکا ہو تو بھ ادا کیے جاسکتے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ آپ تفصیلی جو اب سے مستفید فرمائیں گے۔  محمد۔ ع۔ أ۔الدوادمی


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ تحیتہ المسجد کسی وقت بھی ادا کیے جاسکتے ہیں ۔ حتی کہ فجر اور عصر (کی نماز) کے بعد بھی ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل قول میں عموم ہے:

((إذ دخلَ أحدُکم المسجدَ فلایجلِسْ حتَّی یُصلَّیَ رَکَعَتینِ))

’’ تم میں کوئی شخص جب مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دورکعت ادا کرلے۔‘‘

اس کی صحت پر شیخین کا اتفاق ہے اوراس لیے بھی کہ یہ ذوات اسباب سے ہیں ۔ جسے طواف کی نماز اور سوج گہن کی نماز۔ ایسی تمام نمازوں میں درست بات یہی ہے کہ وہ تمام نہی کے ا وقات میں بھی ادا کی جاسکتی ہیں جیسے فوت شدہ فرض نمازوں کی قضا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کی نماز کے متعلق فرمایا:

((یابَنِی عَبَد مناف الاتمنعو أحداً طافَ بہذَا البَیْتِ وصلیّ أیَّة ساعة شائَ مِنْ لیلٍ أو نہارٍ))

’’ اے بنی عبدمناف! جو شخص اس گھر کا طواف کر ے اور نماز ادا کرے۔ اسے مت روکو، خواہ رات یا دن کا کوئی بھی وقت ہو۔‘‘

اسے احمد او صحاب سنن نے اسناد صحیح سے نکالا ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف (سورج گہن یا چاند گہن) کے متعلق فرمایا:

((إنَّ الشًّمْسَ والقَمرَ آیتانِ منْ آیاتِ اللّہ لا ننکسفَان لِمَوْتِ أحَدٍ ولا لحیاتِہ ، فإِذَا رأیتُم ذلِک فصَلُّوا وادْعُوا حتَّی یُکْشَفَ مابِکُم۔))

’’ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں دو نشانیاں ہیں۔ انہیں کسی کو موت یا پیدائش کی وجہ سے گہن نہیں لگتا ۔ لہٰذا جب تم گہن دیکھو تو نماز ادا کرو او ردعا کرو۔ اس وقت کہ گہن کھل جائے۔‘‘

اس کی صحت پر شیخین کا اتفاق ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((مَنْ نامَ عنِ لصَّلاۃِ أو نَسِیَھا فلْیُصَلَّھا إذَا ذَکَرَھا! لاکفَّارۃَ لھَا إلاَّ ذِلک۔))

’’ جو شخص نماز کے وقت سویا ہوا ہو یا بھول جائے تو جب اسے یاد آجائے ، نماز ادا کرے۔ بس یہی اس کا کفارہ ہے۔‘‘

او ریہ تمام احادیث ا وقات نہی اوردوسرے اوقات سب کے لیے عام ہیں اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی یہی قول پسند کیاہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 62

محدث فتویٰ

تبصرے