سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(34) ہم اذان اول وقت میں دیں یا آخر وقت میں ؟

  • 7758
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1009

سوال

(34) ہم اذان اول وقت میں دیں یا آخر وقت میں ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ہم ایک جماعت تھے۔ ہم نے طے کرلیا کہ مثلا ظہر کی نماز آخر وقت میں ادا کریں گے۔ اب اذان پہلے وقت میں کہنا لازم نے یا آخر وقت میں ؟ اور کیا اذان کے بغیر ہماری نماز درست ہوگی۔ابراہیم۔ ص


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب آپ لوگ شہر میں ہوں تو آپ پر واجب ہے کہ مساجد میں جا کر مسلمانوں کے ساتھ نماز ادا کریں۔ الایہ کہ کوئی شرعی عذر ہو۔ جیسے مرض وغیرہ۔ اگر عذر شرعی موجود ہو تو گھر میں ادا کی ہوئی نماز جائز ہے اور شہر میں شہر والوں کی اذان ہی کافی ہے ہاں! جب آپ صحرا ہوں تو نماز کا قیام (باجماعت) مشروع ہے اس صورت میں اپ پر واجب ہیکہ آپ اذان کہیں اور نماز باجماعت ادا کریں۔ کیونکہ علماء کے دو اقوال میں صحیح تر قول یہ ہے کہ اذان اور اقامت فرض کفایہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک بن حویرد اور اس کے ساتھیوں سے فرمایا:

((إذا حضرتِ الصَّلاۃُ فلْیؤذِنْ لکُم أحدُکم ولْیَؤُ مَّکم أکبرُکم۔))

’’ جب نماز کا وقت آجائے تو تمہارے لیے تم میں سے کوئی ایک اذان کہہ اور جو تم میں بڑا ہو وہ امامت کرائے‘‘

اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک بن حویرث اور اس کے ساتھی سے کہا :

((إذا حضرت الصَّلاۃُ فأذَّنا وأقیماَ۔))

’’ جب نماز کا وقت ہوجائے تو اذان کہو اور نماز با جماعت ادا رکرو‘‘

اور اس لیے بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں بلال رضی اللہ عنہ کو اور مکہ میں ابومحذورۃ رضی اللہ عنہ کو اذان کا حکم دیا اور انہیں دونوں کو نماز باجماعت میں اقامت کہنے کا حکم دیا ۔ اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ہمیشہ پانچوں نمازین اذان اور اقامت سے ادا کرتے رہے ۔ جو اذان اور اقامت کی فرضیت پر دلیل ہے ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((صلُّوا کمارأیتُمُونِی أصَلَّی۔))

’’ نماز اس طرح ادا کرو جیسے مجھے ادا کرتے دیکھتے ہو۔‘‘

رہا اول یا آخروقت میں اذان کہنے کا معاملہ ، جبکہ تم صحرا میں ہو تو اس معاملہ میں انشاء اللہ تعالیٰ بہت وسعت ہے۔ اول وقت پر اذان ا ور نماز اور س میں جلدی کرنا افضل ہے اور اگر آپ اذان اور صلوۃ کو مؤخر کر کے ظہر کو عصر کے ساتھ اور مغرب کو عشاء کے ساتھ اد کرلیں تو بحالت سفراس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ مسافر کے لیے یہ رخصت ہے کہ وہ سفعر میں جمع کر لے۔ یہ جمع تقدیم۔ یہ بات مسافر کی سہولت اور آرام کے مطابق ہوگی۔

اور اگر وہ ظہر کے وقت سفر پر ہوتوافضل یے ہے کہ ظہر کو مؤخر کر کے عصر کے ساتھ ادا کر لے جبکہ وہ ز وال سے پہلے روانہ ہوا ہوا اورجب مغرب سے پہلے آغاز کرے تو مغرب کو عشاء کے ساتھ ملا کر ادا کرے۔ مگر جب وہ زوال کے بعد آغاز سفر کرے تو افضل یہ ہے ہ عصر کو مقدم کر کے ظہر کے ساتھ ادا کرے۔ اسی طرح اگر سورج غروب ہونے کے بعد روانہ ہو تو افضل یہ ہے کہ عشاء کو مقدم کر کے مغرب کے ساتھ ادا کر ے۔ کیوکہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ہو اس پر دلالت کر تی ہے ۔

اور بے شک اللہ عزوجل نے فرمایا:

﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَة ﴾

’’ نمازاس طرح ادا کرو جیسے مجھے ادا کرتے دیکھتے ہو۔‘‘ (الاحزاب: ۲۱)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 59

محدث فتویٰ

تبصرے