السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں ایک رواج یہ ہو چلا ہے کہ بعض لوگ حلقہ بنالیتے ہیں اور وسط میں سفید رومال رکھ لیتے ہیں ۔ پھر وہ لاالہ اللہ کہتے ، استغفار کرتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دورد بھیجتے ہیں ان کے بارے میں کیا حکم ہے۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ رواج بدعت ہے جسے نہ مصطفی علیہ الصلاۃ والسلام نے اور نہ سلف صالحین نے کیا اور نہ اس کا حکم دیا نہ ہی اسے
یہ رواج بدعت ہے جسے نہ مصطفی علیہ الصلاۃ والسلام نے اور نہ سلف صالحین نے کیا اور نہ اس کا حکم دیا نہ ہی اسے برقرار رکھا۔ لہٰذ ا یہ بدعت ہوئی۔ جسے چھوڑنا ضروری ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((مَنْ أَحدثَ فی أَمرِنا مَا لیسَ مِنْہُ فہُورَدَّ))
’’ جس نے ہمارے اس امر (شریعت) میں کوئی نئی بات پیدا کی جو پہلے اس میں نے تھی ، وہ مردود ہے‘‘
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
امابعد! بہتر حدیث اللہ کی کتاب ہے اوربہتر راہ ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ ہے اور سب سے برے کام وہ ہے جو نئے بنالئے جائیں اورہر بدعت گمراہی ہے۔
اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا اور پہلی حدیث کو شیخین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی ایک ایسا واقعہ ہو ا۔ انہوں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ حلقہ بابدھے ہوئے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے کہ سوبار سبحان اللہ کہو…سو بار لا الہ الا اللہ کہو… وغیرہ وغیرہ ۔ تو آپ نے ان پر گرفت کرتے ہوئے فرمایا: شاید تو لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت سے زیادہ ہدایت یافتہ ملت ہو۔ یا پھر گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو ۔ وہ کہنے لگے۔ اے ابو عبد الرحمن! ہمارا اس سے بھلائی کے علاوہ کچھ اور ارادہ نہیں تھا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جوبھلائی کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن وہ انہیں ملتی نہیں۔
جو کچھ ہم نے ذکر کیا اسے سائل اور دوسرے لوگ جانتے ہیں کہ یہ اور اس سے ملتے جلتے اعمال دین میں نئی نئی بدعات ہیں۔ مسلم کے لیے مشروع یہی بات ہے کہ وہ خود ہی سبحان اللہ ، الحمد اللہ اور لا الہ الااللہ کہے اور اس کے لیے نہ حلقے بنائے اور نہ کوئی دوسری کیفیت ، جسے اللہ نے مشروع نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایسی بات کی توفیق دے جس میں ا س کی رضا ہے او ر شریعت مطہرہ کی موافقت عطا فرمائے۔ بلاشبہ وہی بہتر ہے جس سے سوال کیا جاتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب